Ticker

6/recent/ticker-posts

Advertisement

تحصیل علم نوافل سے افضل


 
امام محمد علم کی فرضیت کو نوافل پر ترجیح دیتے تھے ۔وہ ساری ساری رات نوافل پڑھنے کی بجائے فقہی مسائل میں غوروحوض کرتے رہتے تھے۔آپ رات کو بستر پر سونے کی بجائے فقہی مسائل کو مرتب کرتے اور اسی عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھ لیتے تھے ۔وہ اپنے آرام و سکون پر امت محمدیہ ﷺ کے آرام و سکون کو ترجیح دیتے تھے ۔کہ شرعی احکام میں  کس طرح امت محمدیہ ﷺ کے لیے سہولت و آسانی پیدا کی جائے ۔جیسا کہ علامہ سعیدی صاحب نے علامہ کردری  کے حوالے سے لکھاہے کہ :
امام شافعی بیان کرتے ہیں کہ ایک رات میں امام محمد کے پاس ٹھہرا ،میں ساری رات نوافل کی ادائیگی میں مشغول رہا اور امام محمد بستر پر لیٹے رہے۔صبح کی نماز امام محمد نے بغیر وضو کیے ادا کی ۔  میں پوچھا حضرت آپ نے نماز کے لیے وضو نہیں کیا؟فرمایا :تم نے ساری رات اپنے نفس کے لیے عمل کیا اور نوافل ادا کیے ۔میں نے رسول اللہ ﷺکی امت کے لیے عمل کیا اور کتاب اللہ سے مسائل کا حل  تلاش کرتا رہا ۔اور اس رات میں نے ایک ہزار سے زیادہ مسائل کا حل تلاش کیا۔ امام شافعی فرماتے ہیں یہ سن کر میں نے اپنی شب بیداری سے زیادہ امام محمد کی شب بیداری کو فوقیت دی ۔[1]
امام محمد نے دین محمدی ﷺ کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو وقف کر رکھا تھا۔ہر وقت فقہ اسلامی کی تدوین و ترتیب میں مگن رہتے تھے ۔گھر والوں کے لیے ان کی ضروریات زندگی کا انتظام کر کے خود خدمت دین متین میں مشغول رہتے تھے۔چنانچہ امام ذہبی لکھتے ہیں :
ابن سماعہ کہتے ہیں: محمد بن حسن نے اپنے اہل خانہ کو کہا تم مجھ سے دنیاوی ضروریات کے بارے میں سوال کر کے میرے دل کو مشغول نہ کرو۔جو تمہیں ضرورت ہو میرے وکیل سے لے لو۔اس              سے مجھے فراغت قلبی حاصل ہوگی اور پریشانیوں کا سامنا کم ہوگا۔
امام محمداپنی جسمانی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ اپنا دنیاوی مال متاع بھی حصول علم کے لیے خرچ کرنے میں ذرا بھی تردد نہیں کیا کرتے تھے۔یہاں تک کہ آپ نے والد محترم کی طرف سے ملنے والی وراثت کی خطیر رقم بھی فروغ علم میں خرچ کردی ۔چنانچہ امام ذہبی لکھتے ہیں:
  محمد بن حسن فرماتے ہیں کہ میرے والد نے تیس ہزار درہم ورثہ میں چھوڑے میں نے پندرہ سو درہم علم نحو اور شعر  اور پندرہ سو علم حدیث فقہ پرخرچ کر دیئے ۔
اسی طرح آپ کی صحبت سے فیض یاب ہونے والے تلامذہ بھی علم کو بڑی اہمیت دیتے تھے۔ حصول علم کے لیے اپنا زیادہ سے زیادہ مال خرچ کرنے میں فخر محسوس کرتے تھے ۔پھر اس کے بدلے جو انہیں قیمتی علمی سرمایہ کی صورت میں نعم البدل ملتا تو وہ پھولے نہیں سماتے تھے ۔چنانچہ علامہ ذہبی لکھتے ہیں کہ امام شافعی فرماتے ہیں:
میں نے محمد بن حسن کی کتابوں پر ساٹھ 60 دینار خرچ کیے ،پھر میں نے ان میں غور و فکر کیا تو ہر مسئلے میں حدیث کو پایا۔


[1]۔ السعیدی ، تذکرۃ المحدثین ،ص138
[2] ۔ الذہبی ،مناقب الامام ابی حنیفۃ وصاحبیہ ، ج1 ص86
[3] ۔ الذہبی ،مناقب الامام ابی حنیفۃ وصاحبیہ ، ج1 ص86

[4] ۔ایضاً،ص 81

Post a Comment

0 Comments