Ticker

6/recent/ticker-posts

Advertisement

Iqbaliat 303 assignment no 2 F.A, Spring 2024

 

Course Name:                                                                                      Iqbaliat 

Course Code:                                                                                       303 

Level:                                                                                                   FA, ICOM 

Semester:                                                                                             Spring 2024 

Assignment:                                                                                         

Due Date:                                                                                            24-06-2024 

Total Assignme                                                                                   

Late Date:                                                                                           19-08-2024 

سوال نمبر : 1 درج ذیل سوالات مختصر جواب تحریر کیجئے۔ 

:1خطوط اقبال بنام قائد اعظم پہلی بار کس زبان میں شائع ہوئے؟

 جواب: خطوط اقبال بنام قائد اعظم پہلی بار 1943ء میں انگریزی زبان میں شائع ہوئے۔ 

2 اقبال نے قائد اعظم کے نام اپنے خطوط میں جو خیالات پیش کیے وہ کس قرار داد کی بنیاد بنے ؟

 جواب: اقبال نے قائد اعظم کے نام اپنے خطوط میں جو خیالات پیش کیے وہ 23 مارچ 1940ء قرار داد کی بنیاد بنے

۔ .3 مسلم لیگ کی تنظیم نو کا آغاز کب اور کس کے مشورے سے کیا گیا ؟ 

جواب علامہ اقبال کی تحریک پر قائد اعظم نے 1936ء میں مسلم لیگ کی تنظیم نو کا آغاز کیا۔ 

:4اقبال کے خیال میں اسلامی نقطہ نگاہ سے ہندوستان کے مسلمانوں کیلئے کون سامسئلہ زیادہ اہم نتائج کا حامل تھا؟

 جواب: اقبال کے خیال میں اسلامی نقطہ نگاہ سے ہندوستان کے مسلمانوں کیلئے غربت ( روئی کا مسئلہ زیادہ اہم نتائج کا حامل

 .5 کمیونل ایوارڈ کو اقبال نے کسی لحاظ سے پسند کیا؟

 جواب: کمیونل ایوارڈ کو اقبال نے اس لئے پسند کیا کہ اس میں ہندوستان میں مسلمان کے سیاسی وجود کو تسلیم کیا گیا تھا۔

.6اقبال نے پاکستان کا تصور کب اور کہاں پیش کیا ؟

جواب: اقبال نے پاکستان کا تصور الہ آباد کے اپنے خطبے میں 1930ء میں پیش کیا۔ 

.7 کانگریس نے مسلم لیگ کو مرعوب کرنے اور مسلمانوں میں انتشار پیدا کرنے کے لئے کون سی تحریک چلائی؟

 جواب: کانگریس نے مسلم لیگ کو مرعوب کرنے اور مسلمانوں میں انتشار پیدا کرنے کے لئے مسلم رابطہ عوام تحریک چلائی۔ 

.8تحریک آزادی میں مجلس احرار نے ہندوستان کی کسی سیاسی جماعت کا ساتھ دیا؟ 

جواب تحریک آزادی میں مجلس احرار نے کانگریس کا ساتھ دیا۔ 

.9 یونینسٹ پارٹی کسی انگریزی اخبار کی مالی امداد کرتی تھی اور کیوں ؟ ۔ 

جواب: انگریزی اخبار ایسٹرن ٹائمنز جولاہور سے شائع ہوتا تھا کو یونینسٹ پارٹی کی مالیامداد حاصل تھی کیونکہ یہ اخبار اس پارٹی کے پرو پیگنڈے کے لئے وقف تھا۔ 

.10 مسجد شہید گنج کسی دور میں تعمیر ہوئی تھی؟

 جواب: مسجد شہید گنج شاہجہاں کے عبد میں تعمیر ہوئی تھی۔ 

:11 پنجاب یونینسٹ پارٹی کے قیام کا مقصد کیا تھا؟ 

جواب: پنجاب یونینسٹ پارٹی کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ پنجاب کی حکومت ہندوؤں اور مسلمانوں کے اشتراک سے چلائی جائے

۔: 12 کرشک پر جا پارٹی کسی قسم کی جماعت تھی اور ان کے سر براہ کون تھے ؟ 

جواب: کرشک پر جا پارٹی بنگال کی ایک غیر فرقہ وارانہ جماعت تھی۔ ابو القاسم فضل الحق اس جماعت کے سربراہ تھے۔

:13 نئے دستور سے کیا مراد ہے؟

 جواب: نئے دستور سے مراد قانون ہند 1935ء ہے۔ 

:14 آل انڈیا نیشنل کنونشن (37-1936ء) کے انتخابات میں کسی جماعت کو نمایاں کامیابی حاصل ہوئی ؟ 

جواب: آل انڈیا نیشنل کنونشن (37-1936ء) کے انتخابات میں کانگریس کو نمایاں کامیابی حاصل ہوئی۔ 

 :15 مسلم لیگ کو آخر کار یہ فیصلہ کرناپڑے گا کہ وہ ہندوستان کے بالائی طبقوں کی جماعت بنی رہے گی یا مسلم جمہور کی یہ الفاظ کس مشہور شخصیت کے ہیں؟

 جواب: مسلم لیگ کو آخر کار یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ وہ ہندوستان کے بالائی طبقوں کی جماعت بنی رہے گی یا مسلم جمہور کی یہ الفاظ علامہ اقبال کے ہیں۔

 .16  اقبال کے خیال میں ہندوستان کے مسلمانوں کی غربت کا ذمے دار کون تھا؟ 

جواب: اقبال کے خیال میں ہندوستان کے مسلمانوں کی غربت کی ذمے دار ہندوؤں کی ساہوکاری (سود خوری) سرمایہ داری اور غیر ملکی حکومت تھی

۔: 17 اقبال کے خیال میں ہندوستان کے مسائل کے حل کے لئے کس مسئلے پر سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت تھی؟

 جواب: اقبال کے خیال میں ہندوستان کے مسائل کے حل کے لئے مسلم لیگ کو مسلمانوں میں غربت کے خاتمے کے مسئلے پر سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت تھی

۔ 18 برہمنیت کیا ہے؟

 جواب: برہمنیت سے مراد ہندودھرم کا بالائی استحصالی طبقہ ہے۔

 :19 ہندوؤں کے عقیدے کے مطابق انسان کن چار ذاتوں میں منقسم ہیں؟

جواب: ہندوؤں کے عقیدے کے مطابق انسان برہمن، کھشتری، ویش اور شودر کی چار ذاتوں میں منقسم ہیں

۔ :20 بدھ مت میں دکھوں اور مصائب سے نجات کا کیا حل پیش کیا گیا ہے ؟ 

جواب : بدھ مت میں دکھوں اور مصائب سے نجات کا حل خواہشات کو ختم کر کے زندگی سے فرار اور رہبانیت اختیار کرنے کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ 

سوال نمبر :2 درج ذیل موضوعات پر مختصر نوٹ لکھیے۔ (الف) نظم " ایک پرندہ اور جگنو " کا خلاصہ

جواب: خلاصه

اقبال کی یہ نظم ایک پرندے اور جگنو کے درمیان مکالمے کی صورت میں ہے۔ اقبال نے اس نظم میں بتایا ہے کہ ایک شام کوئی پرندہ درخت پر بیٹھا گارہا تھا۔ اسے کوئی چمکتی چیز دکھائی دی۔ پرندے نے جگنو سمجھ کر اس پر حملہ کیا وہ چیز تھی تو جگنو ہی مگر جگنو نے پرندے سے بحث شروع کی۔ اس نے کہا کہ پرندے کے پاس اگر چہکنے کی اہلیت ہے تو اس جگنو کے پاس بھی چمک اور روشنی ہے۔ جگنو لباس نور پہنے ہوئے ہے وہ پتنگوں کی دنیا کا گو یا کوہ طور ہے جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو خدا کا جلوہ دکھائی دیا تھا۔ پرندے کی چہک اگر کانوں کو پسند ہے تو جگنو کی چمک بھی آنکھوں کو بھلی لگتی ہے۔ جگنو پرندے کی خوش نوائی کی تعریف کرتا ہے اور اپنے پروں کے حسن کی بھی پرندے کی چونچ گانا جانتی ہے مگر باغ کی روشنی کا سامان جگنو مہیا کرتا ہے۔ پرندے کی آواز میں ساز ہے تو جگنو کی چمک میں سوز سوز و ساز یعنی ہمدردی اور باہمی تعاون سے ہی دنیا کے کام چلتے ہیں۔ پوری کہانی کا سبق آخری شعر میں ہے : ہم آہنگی سے ہے محفل جہاں کی اسی سے ہے بہار اس بوستان کی (ب) نظم "چاند تارے " کے اہم نکات: جواب: اس نظم میں اقبال نے چاند اور تاروں کے درمیان ایک فرضی مکالمے کی صورت میں عمل کی تعلیم دی ہے۔ ایک رات ستاروں نے چاند سے یہ سوال کیا کہ ہم ایک مدت سے آسمان کی بلندیوں پر چمک رہے ہیں لیکن ہمارے چمکنے سے آسمان پر کوئی تبدیلی آج تک نہیں ہوئی۔ آسمان اور اس کے نظارے ویسے ہی ہیں جیسے کہ پہلے تھے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کی ہر چیز حرکت میں ہے اور سکون و اطمینان کی ہر جگہ بہت کمی ہے تارے، انسان، درخت اور پھر سب کسی نہ کسی صورت میں متحرک ہیں۔ کیا یہ مسلسل سفر کبھی ختم بھی ہے ہو گا؟ چاند نے جواب دیا اے میرے دوستو ! اس دنیا کی بنیاد حرکت اور عمل پر ہے۔ یہ اس دنیا کا بہت پر انا قاعدہ ہے۔ زمانہ ایک تیز رفتار گھوڑے کی طرح ہے جو ہماری خواہشات کا چابک کھا کر آگے کی طرف دوڑ رہا ہے (یعنی جس طرح گھوڑا چابک کھانے سے تیز دوڑتا ہے ) اسی طرح دنیا کی ترقی کا انحصار بھی انسان کی طلب پر ہے انسان کے دل میں نئی نئی چیزیں بنانے اور ایجاد کرنے کی طلب پیدا ہوتی ہے تو وہ اس کے لئے کوشش کرتا ہے اور انسان کی کامیابیاں زمانے کو ترقی کے راستے پر آگے کی طرف لے جاتی ہیں۔ زندگی کے اس راستے پر کہیں رک جانا یا ٹھہر جان سخت نادانی کی بات ہے اور اگر کوئی ذرادیر کے لئے رک جائے یعنی محنت اور کوشش کرنا چھوڑ دے تو یہ گویا خود اپنی موت کو دعوت دینے کے مترادف ہو گا۔ یعنی پرندہ اگر اڑنے میں سستی کرے گا اور وہ جیسے ہی اڑنا چھوڑ کر اپنے پر سمیٹ کر زمین کی طرف آئے گام شکار کی اسے اپنے جال میں گرفتار کر لے گا اور وہ بلندی پر پرواز کرتارہے گا تو اس کی آزادی محفوظ رہے گی۔ اقبال کہتے ہیں کہ زندگی کی اس دوڑ میں جو برابر اپنا کام کئے جارہے ہیں وہ ترقی کر کے بہت آگے نکل گئے ہیں اور جو آرام کرنے پاکستانے کے لئے ذرادیر کو رک گئے ہیں وہ ترقی کے میدان میں پیچھے رہ گئے ہیں اس لئے کہ رک جانے والے بھی ترقی نہیں کر سکتے۔ 

سوال نمبر : 33 علامہ اقبال کی شاعری کے ارتقاء پر نوٹ لکھیے۔ 

جواب

علامہ اقبال کی شاعری کا ارتقاء

علامہ اقبال کی شاعری اردو ادب کا ایک عظیم سرمایہ ہے جس میں انہوں نے مختلف موضوعات پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ ان کی شاعری میں مختلف ادوار کا ارتقاء دیکھا جا سکتا ہے، جس میں ان کے افکار اور خیالات میں تبدیلیاں بھی آئی ہیں۔ 

ابتدائی دور :

اقبال کی شاعری کا ابتدائی دور 1893ء سے 1905ء تک کا ہے۔ اس دور میں ان کی شاعری میں رومانوی اور صوفیانہ خیالات غالب تھے۔ اس دور کی مشہور کتب میں " بانگ درا " اور " ارمغان حجاز " شامل ہیں۔ 

دومر ادور :

اقبال کا دوسرا دور 1905ء سے 1924ء تک کا ہے۔ اس دور میں ان کی شاعری میں سیاسی اور فلسفیانہ خیالات غالب آنا شروع ہو گئے۔ اس دور کی مشہور کتب میں " بال جبریل" اور "زبان وادب " شامل ہیں۔ 

تیسر ادور :

اقبال کا تیسر ادور 1924ء سے 1938ء تک کا ہے۔ اس دور میں ان کی شاعری میں روحانی اور عرفانی خیالات غالب ہو گئے۔ اس دور کی مشہور کتب میں " ارمغان حجاز " ( دوسرا ایڈیشن) اور "پس چہ باید گفت " شامل ہیں۔ 

علامہ اقبال کی شاعری کے ارتقاء کی اہم خصوصیات

موضوعات میں تنوع

اقبال کی شاعری میں مختلف موضوعات پر نظمیں اور اشعار موجود ہیں۔ انہوں نے عشق، سیاست، فلسفہ، مذہب، اخلاقیات، اور سماجیات جیسے موضوعات پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ 

افکار میں تبدیلی

اقبال کے افکار اور خیالات میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی آتی رہی۔ ابتدائی دور میں وہ رومانوی اور صوفیانہ خیالات کے حامل تھے ، جبکہ بعد میں ان کے خیالات سیاسی اور فلسفیانہ ہو گئے۔ 

اسلوب میں تبدیلی

اقبال کے اسلوب میں بھی وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی آتی رہی۔ ابتدائی دور میں ان کا اسلوب سادہ اور رواں تھا، جبکہ بعد میں ان کا اسلوب زیادہ پیچیدہ اور گہر ا ہو گیا۔ 

زبان میں مہارت

اقبال اردو اور فارسی دونوں زبانوں پر کامل عبور رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں دونوں زبانوں کا بھر پور استعمال کیا ہے۔ علامہ اقبال کی شاعری کا اردو ادب پر اثر : علامہ اقبال کی شاعری کا اردو ادب پر گہرا اثر ہے۔ ان کی شاعری نے اردو ادب میں ایک نئی تحریک کو جنم دیا جسے "اقبالیات " کہا جاتا ہے۔ اقبال کے بعد آنے والے بہت سے شعراء نے ان کے افکار اور خیالات سے متاثر ہو کر اپنی شاعری میں ان کا اظہار کیا ہے.

۔ سوال نمبر : 4 ۲۸ مئی ۱۹۳۷ء کے خط میں اقبال نے ہندوستان اور ہندوستان کے مسلمانوں کے جن مسائل کی طرف توجہ دلائی ہے ان کی :4 وضاحت کیجیے۔ 

جواب: 28 مئی 1937 کو ، علامہ اقبال نے قائد اعظم محمد علی جناح کو ایک خط لکھا جس میں انہوں نے ہندوستان اور ہندوستان کے مسلمانوں کے در پیش کئی اہم مسائل کی نشاندہی کی۔ ان مسائل میں شامل ہیں

ہندوستان میں مسلمانوں کی سیاسی کمزوری

اقبال نے نوٹ کیا کہ مسلمان ہندوستان کی آبادی کا ایک قابل ذکر حصہ ہیں، لیکن وہ سیاسی طور پر کمزور ہیں۔ انہوں نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ مسلمان ایک متحد قوم نہیں ہیں اور وہ مختلف فرقوں اور گروہوں میں تقسیم ہیں۔ اس کی وجہ سے ان کے لیے اپنے حقوق کے لیے متحدہ طور پر کھڑا ہونا مشکل ہو جاتا ہے۔

 ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان بڑھتی ہوئی فرقہ واریت

اقبال نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان بڑھتی ہوئی فرقہ واریت پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے خبر دار کیا کہ اگر اس مسئلے کو حل نہیں کیا گیا تو یہ ہندوستان کے لیے تباہ کن نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔ 

مسلمانوں کی معاشی مشکلات

اقبال نے مسلمانوں کی معاشی مشکلات پر بھی روشنی ڈالی۔ انہوں نے نوٹ کیا کہ بہت سے مسلمان غربت اور جہالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے ان کے لیے اپنے حقوق کے لیے لڑنا اور اپنی صلاحیتوں کو مکمل طور پر پورا کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ 

برطانوی راج کا استحصال

اقبال نے برطانوی راج کے ذریعہ ہندوستان کے استحصال کی بھی مذمت کی۔ انہوں نے دلیل دی کہ برطانوی حکومت ہندوستان کے وسائل کو لوٹ رہی ہے اور اس کے عوام کو غریب اور پسماندہ بنا رہی ہے۔ 

اقبال کے حل

ان مسائل کے حل کے لیے ، اقبال نے کئی تجاویز پیش کیں، جن میں شامل ہیں

مسلمانوں میں اتحاد اور یکجہتی کی ضرورت پر زور

اقبال نے مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھ دیں اور ایک متحد قوم کے طور پر متحد ہو جائیں۔ اس سے وہ اپنے حقوق کے لیے زیادہ موثر طریقے سے لڑ سکیں گے۔ 

ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان فرقہ واریت کو ختم کرنے کی ضرورت

اقبال نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان فرقہ واریت کو ختم کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ انہوں نے دلیل دی کہ دونوں برادریوں کو ایک دوسرے کے ساتھ احترام اور برداشت کے ساتھ رہنا چاہیے۔ مسلمانوں کے لیے تعلیم اور معاشی مواقع میں بہتری کی ضرورت

اقبال نے مسلمانوں کے لیے تعلیم اور معاشی مواقع میں بہتری کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ انہوں نے دلیل دی کہ تعلیم اور اقتصادی ترقی مسلمانوں کو اپنی پوری صلاحیتوں کو پورا کرنے اور ہندوستانی معاشرے میں مثبت کردار ادا کرنے میں مدد دے گی۔ 

برطانوی راج سے آزادی کی ضرورت

اقبال نے برطانوی راج سے آزادی کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ انہوں نے دلیل دی کہ برطانوی حکومت ہندوستان کی ترقی میں رکاوٹ ہے اور اسے صرف آزادی کے ذریعے ہی اس کی پوری صلاحیتوں کو پورا کیا جا سکتا ہے۔ 

سوال نمبر : 5 خطوط اقبال بنام قائد اعظم کے مباحث پر تفصیلی نوٹ تحریر کیجیے۔

اپنے ان خطوط میں علامہ اقبال نے ایک اسلامی فلاحی ریاست کے خدو خال واضح کئے۔ اور قائد اعظم کو اس جداگانہ مسلم ریاست کے قیام کی ضرورت سے آگاہ کیا۔ دونوں رہنماؤں کی خط و کتابت کا زمانہ مسلم لیگ کی تنظیم نو کا ابتدائی زمانہ تھا۔ علامہ اقبال نے اپنے خطوط میں مسلم ہندوستان کے سیاسی مستقبل کے بارے میں اپنے خیالات کا واضح اظہار کیا۔ قائد اعظم ان خیالات سے متفق ہوئے وہی خیالات 23 مارچ 1940ء کی قرار داد کی بنیاد بنے۔ علامہ اقبال نے 1930ء میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں ایک جداگانہ مسلم ریاست کا تصور پیش کیا۔ اس ریاست کے حصول کے لئے وہ صرف قائد اعظم کو مسلمانوں کی صحیح رہنمائی کا اہل سمجھتے تھے۔ کیونکہ وہ اتنے دیانت دار تھے کہ کوئی انہیں خرید نہیں سکتا تھا۔ علامہ اقبال کے خطوط سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے قائد اعظم کو مسلمانوں کے لئے جدا گانہ اسلامی فلاحی ریاست کے حصول پر آمادہ کیا جو ہندوستان کے مسلمانوں کے علیحدہ وجود کے تحفظ کے ساتھ ساتھ ان کے معاشی اور اقتصادی مسائل کو بھی حل کر دے۔ جدا گانہ ریاست کے حصول کے لئے علامہ اقبال کے نزدیک ضروری تھا کہ مسلم لیگ عوام میں ہر دالعزیز ہو۔ اس وقت تک مسلم لیگ صرف بالائی طبقے کی جماعت تھی۔ 28 مئی 1937ء کے خط میں علامہ اقبال نے لکھا کہ مسلم لیگ کو آخر کار یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ وہ ہندوستان کے مسلمانوں کے بالائی طبقوں کی ایک جماعت بنی رہے گی۔ یا مسلم جمہور کی۔ علامہ اقبال کی تحریک پر قائد اعظم نے 1936ء میں مسلم لیگ کی تنظیم نو کا آغاز کیا۔ مسلم لیگ کی تنظیم نو کا کام قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں تیزی سے ہونے لگا۔ 1937ء کا ایک اہم واقعہ آل انڈیا نیشنل کنونشن میں پنڈت جواہر لال نہرو کی تقریر تھی۔ اس تقریر میں نہرو نے مسلمانوں کے جداگانہ سیاسی وجود کو تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا۔ علامہ اقبال نے قائد اعظم کے نام ایک طویل خط لکھ کر اس تقریر کی طرف توجہ دلائی۔ اپنے اس خط میں انہوں نے لکھا کہ ہمیں اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ ایشیا میں اسلام کی اخلاقی اور سیاسی طاقت کے مستقبل کا انحصار بہت حد تک ہندوستان کے مسلمانوں ، ہندوستان کے مسلمانوں کی مکمل تنظیم پر ہے۔ اس خط میں ہے۔ انہوں نے لکھا کہ ملک میں صرف میں صرف اقتصادی مسئلہ ہی تنہا ایک مسئلہ نہیں ہے۔ اسلامی نقطہ نگاہ سے ثقافتی مسئلہ ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے اپنے اندر زیادہ اہم نتائج رکھتا ہے۔ علامہ اقبال نے قائد اعظم کے نام اپنے 28 مئی 1937ء کے خط میں یہ بات واضح کر دی تھی کہ مسلمانوں کے اپنے سیاسی اور اقتصادی مسائل حل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ مسلمانوں کی اپنی جداگانہ ریاست ہو اور اس میں نظام شریعت کا نفاذ عمل میں لایا جائے اس سے مسلمانوں کی غربت) روٹی کا مسئلہ ) اور ہندوستان میں فرقہ وارانہ امن و امان دونوں مسائل حل ہو جائیں گے۔ اپنے خط میں انہوں نے لکھا کہ اسلامی قانون کے طویل و عمیق مطالعہ کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اگر اس نظام قانون کو اچھی طرح سمجھ کر نافذ کیا جائے تو ہر شخص کے لئے کم از کم حق معاش محفوظ ہو جاتا ہے لیکن شریعت اسلام کا نفاذ اور ارتقاء ایک آزاد مسلم ریاست کے بغیر ناممکن ہے۔ علامہ اقبال نے مسلمانوں کے لئے جدا گانہ ریاست پر اس لئے زور دیا کہ مسلمانوں کے ساتھ نا انصافی کا سلسلہ ختم ہو سکے اور ان کے مسائل کاحل غیر مسلموں کے رحم و کرم پر منحصر نہ ہو۔ اپنے 28 مئی 1937ء کے خط میں انہوں نے لکھا کہ "مسلم ہندوستان کے ان مسائل کو حل کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ملک کو ایک یازیادہ مسلم ریاستوں میں تقسیم کیا جائے۔ جہاں پر مسلمانوں کی واضح اکثریت ہو۔ " 10 برطانوی حکومت نے جس کیمونل ایوارڈ کا اعلان کیا اسے علامہ اقبال نے اس لحاظ سے پسند کیا کہ اس میں ہندوستان کے مسلمانوں کے سیاسی وجود کو تسلیم کیا گیا تھا۔ .11 25 مئی 1936ء اور 21 جون 1937ء کو علامہ اقبال نے جو خطوط قائد اعظم کے نام لکھے ان میں تصور پاکستان کی جھلک واضح ہے۔ اپنے 21 جون 1937ء کے خط میں علامہ اقبال نے مسلمانوں کے لئے ایک الگ ریاست کے قیام کی ضرورت واضح کرتے ہوئے لکھا کہ "مسلم صوبوں کے ایک جداگانہ وفاق کا قیام صرف واحد راستہ ہے۔ جس سے ہندوستان میں امن و امان قائم ہو گا۔ اور مسلمانوں کو غیر مسلموں کے غلبہ و تسلط سے بچایا جا سکے گا۔ " اس سے پہلے 1930ء میں علامہ اقبال خطبہ الہ آباد میں پاکستان کا تصور پیش کر چکے تھے۔ بعد میں وہ قائد اعظم کو رفتہ رفتہ اپنی خواہش مطالبہ پاکستان کی طرف لاتے گئے۔ چونکہ قائد اعظم اس معاملے میں ان کے ہم خیال تھے اس لئے دونوں کے متفقہ خیالات نے 23 مارچ 1940ء کی قرار داد کی شکل اختیار کی۔ جو آگے چل کر قیام پاکستان کی بنیاد بنی۔ 

 

Post a Comment

0 Comments