Ticker

6/recent/ticker-posts

Advertisement

Iqbaliat 303 assignment no 3 FA ,

 

Course Name:                                           Iqbaliat 

Level:                                                        FA, ICOM 

Course Code:                                            303 

Semester:                                                  Spring 2024 

Assignment:                                              

Due Date:                                                  22-07-2024 

Total Assig                                               

Late Date:                                                 19-08-2024 

سوال نمبر : 1 درج ذیل سوالات کے مختصر جواب تحریر کیجئے۔ 

1۔اقبال سب کے لئے " کے مصنف کا نام بتائیے۔

 جواب: "اقبال سب کے لئے " کے مصنف کا نام ڈاکٹر فرمان فتح پوری ہے۔ 

"2۔تضمین " کسے کہتے ہیں؟ 

جواب: کسی دوسرے شاعر کے کسی مصرعے یا شعر کو اپنے کلام میں استعمال کرنے کو تضمین کہتے ہیں۔ مثلاً اس شعر میں فارسی شاعر ملا محمد طاہر غنی کشمیری کا شعر تضمین کیا گیا ہے۔ غنی روز سیاہ پیر کنعاں را تماشا کن که نور دیده اش روشن کند چشم زلیخارا 

:3نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی شعر مکمل کیجئے۔ 

:جواب دوسرا مصرع یہ ضاعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے۔ 

4۔اقبال کے خیال میں وہ کیا چیز ہے جو خدا کے پاک بندوں کو حکومت اور غلامی میں محفوظ رکھتی ہے؟

 جواب : اقبال کے خیال میں استغنا یعنی بے نیازی کی خصوصیت خدا کے پاک بندوں کو حکومت اور غلامی میں محفوظ رکھتی ہے۔

شاہین کی کوئی سی دو خصوصیات بتائیے۔

 جواب: شاہین کی خصوصیات : بلند پرواز ہے ، خلوت پسند ہے اور تیز نگاہ ہے۔ 

.6 نظم " نالہ یتیم " بانگ درا کے کسی حصے میں شامل ہے؟ 

جواب :نظم "نالہ یتیم " بانگ درا میں شامل نہیں بلکہ انجمن حمایت اسلام کے سالانہ اجلاس 24 فروری 1900ء کیلئے الگ چھپوا کر تقسیم کی گئی۔ 

7:حضور ملی اسلم کے وصال کے بعد حضرت بلال نے کتنی بار اذان دی؟ 

جواب: حضور کے وصال کے بعد حضرت بلال نے ایک بار اذان دی۔ 

.8 مثنوی کسے کہتے ہیں؟ 

جواب : اصطلاح میں مثنوی اس طویل نظم کو کہتے ہیں جس کے ہر شعر کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوں۔ اور ہر شعر کے بعد قافیہ بدل جاتا ہے ، عموما اس قسم کی نظموں میں کوئی قصہ یا واقعہ بیان کیا جاتا ہے۔ 

9:حضرت اویس قرنی نے آنحضرت لیلی یا کم سے کتنی بار ملاقات کی؟ 

جواب: حضرت اویس قرنی کو آنحضرت علی ایلیا کی کم سے ملاقات کا شرف حاصل نہ ہو سکا۔ 

.10 رسول الله علی ملی کہ تم نے مدینے کا نام کیا رکھا تھا؟

 جواب: رسول اللہ ﷺنے مدینے کا نام طالبہ اور طیبہ رکھا تھا۔ 

11:یار غار کس عظیم صحابی کو کہا جاتا ہے؟ 

جواب    : یار غار حضرت ابو بکر صدیق کو کہا جاتا ہے۔ 

12   :بلقانی ریاستوں نے ترکوں کے خلاف اعلان جنگ کیوں کیا؟

 جواب: بلقانی ریاستوں نے ترکوں کے خلاف اعلان جنگ بر طانیہ کے اشارہ پر کیا

13   :غم نصیب اقبال کو بخشا گیا ماتم تیرا اقبال کا اشارہ کس کی طرف ہے؟ 

جواب: " غم نصیب اقبال کو بخشا گیا ماتم تیرا میں ہسپانیہ کی اسلامی حکومت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ 

     14           :غرناطہ کس ملک کا شہر ہے ؟

 جواب : غرناطہ چین کا شہر ہے۔ 

15:فاطمہ بنت عبد اللہ کسی جنگ میں شہید ہوئی ؟ 

جواب: فاطمہ بنت عبد اللہ ستمبر 1911ء میں شہید ہوئی جب اٹلی نے طرابلس (لیبیا) پر حملہ کیا

16:اقبال کے خیال میں افراد کی شخصیت اور خودی کی تعمیر اور نشو و نما کس چیز کے بغیر ممکن نہیں؟ 

جواب : اقبال کے خیال میں افراد کی شخصیت اور خودی کی تعمیر اور نشو و نما اجتماعی ماحول اور جماعت کے موثر نظم وضبط اور آئین کے بغیر ممکن نہیں

17 :جو افراد برے وقت میں قوم کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں وہ آخر کار نقصان میں رہتے ہیں۔ " یہ خیال اقبال نے کس نظم میں پیش کیا ہے ؟

جواب: "جو افراد برے وقت میں قوم کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں وہ آخر کار نقصان میں رہتے ہیں " یہ خیال اقبال نے اپنی نظم " پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ " میں پیش کیا ہے

18:نظم " بزم انجم " کے کتنے بند ہیں؟

جواب : نظم "بزم انجم " کے تین بند ہیں۔ 

18:شبنم آری کسے کہتے ہیں؟ 

جواب: "شبنم آری " سے مراد شبنم کا وہ قطرہ ہے جو شیشے کی مانند چمکتا ہو۔ 

20:افراد کے مجموعے کو کیا کہتے ہیں؟

 جواب: افراد کے مجموعے کو جمعیت کہتے ہیں۔ 

سوال نمبر : 2 درج ذیل موضوعات پر مختصر نوٹ لکھیے۔ 

(الف) نظم صقلیہ کا مرکزی خیال۔ جواب:

یہ نظم جولائی 1908ء میں اقبال نے یورپ سے واپس آتے ہوئے لکھی اس نظم میں اس ذہنی انقلاب کا پتہ چلتا ہے جو قیام یورپ کے دوران اقبال کے خیالات میں پیدا ہو چکا تھا۔ صقلیہ اٹلی کے جنوب میں بحیرہ روم کا سب سے بڑا جزیرہ ہے۔ انگریز اس جزیرے کو سسلی کہتے ہیں۔ اس جزیرہ کا رقبہ 9935 مربع میل ہے۔ اس جزیرے پر مختلف اقوام کی حکومت رہی ہے۔ تقریباً دو سو برس تک اس جزیرے پر عربوں کی حکومت بھی رہی ہے۔ یہ نظم چار حصوں پر مشتمل ہے پہلے حصہ میں جزیرہ صقلیہ کے قریب سے گزرتے ہوئے شاعر کا دل بھر آتا ہے اور وہ عرب حکمرانوں اور ان کے کارناموں کو یاد کر کے روتا ہے۔ دوسرے حصے میں جزیرہ صقلیہ سے خطاب ہے۔ شاعر اس کے قائم و دائم رہنے کے لئے دعا کرتا ہے اور وہ صرف اس لئے کہ یہ جزیرہ اس خطے میں عربوں کی عظمت کی ایک نشانی ہے۔ تیسرے حصے میں اقبال ان شاعروں کو یاد کرتے ہیں جنہوں نے مختلف اوقات میں مسلمانوں کے زوال پر اپنے غم کا اظہار کیا چوتھے اور آخری حصے میں شاعر صقلیہ سے اس قدیم زمانے کے واقعات سننا چاہتا ہے جب اس جزیرے پر عربوں کی حکمرانی تھی۔ اس آخری حصے کا موازنہ اگر اقبال کی شاعری کے پہلے دور (1901ء سے 1905ء تک) نظم "ہمالہ" سے کیا جائے تو اقبال کے خیالات میں قیام یورپ کے دوران جو تبدیلی آئی وہ اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے۔ پہلے وہ ہمالیہ سے اس قدیم زمانہ کے حالات جاننے کے لئے بیتاب تھے جب انسان کے آبا و اجداد ہمالہ کے دامن میں آباد ہوئے ہوں گے لیکن اب ان کی آرزو بدل گئی ہے وہ ان لوگوں کے حالات جاننے کی بجائے اولین مسلمان حکمرانوں کے عہد اور ان کی زندگی کے واقعات سننے کے لئے بے قرار ہیں۔ یہ نظم مثنوی کے انداز میں لکھی گئی ہے۔ نظم اس دردو غم کی تصویر ہے جو اقبال کے دل میں اس جزیرے کو دیکھ کر پید اہو۔ ب) نظم صدیق کا خلاصہ ۔ جواب: حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا اصل نام عبد اللہ تھا۔ آپ کے ایثار اور سچائی کی بدولت، صدیق رضی اللہ عنہ کا لقب ، دربار رسالت الی علی کی کمی سے آپ کو ملا۔ آپ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ میں سب سے پہلے ایمان لانے والے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کی تمام زندگی رسول مقبول طی می کنم کی رفاقت میں بسر ہوئی جب یہ آنحضرت ملی یا اسکیم کو کفار مکہ نے بہت پریشان کیا اور آپ میسی یا تم نے مکہ سے مدینہ ہجرت فرمائی تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی آپ کے ساتھ تھے۔ جس غار میں آنحضرت نے پناہ لی اس میں آپ رضی اللہ عنہ بھی رسول اللہ لی لی ایم کے ہمراہ تھے۔ اسی وجہ سے آپ کو یار غار بھی کہتے ہیں۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سچے عاشق رسول تھے انہوں نے اپنا سب کچھ اسلام کی خاطر لٹادیا۔ آپ رضی اللہ عنہ کے بارے میں حضور اکرم طی تم فرمایا کرتے تھے کہ میں نے ہر شخص کے احسان کا بدلہ چکا دیا ہے مگر صدیق کے احسانات کا بدلہ خداہی قیامت کے روز دے گا۔ نظم حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ایثار اور قربانی کے جذبے کو سامنے لاتی ہے جو واقعہ اس نظم میں پیش کیا گیا ہے اس کا تعلق غزوہ تبوک سے ہے یہ جنگ 8 ہجری میں لڑی گئی اس موقع پر آنحضرت نے اپنے تمام صحابیوں سے جہاد کے لئے مال طلب فرمایا تھا، اس موقع پر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اس قدر مال و دولت اور سامان جنگ حضور میں نم کی خدمت میں پیش کیا کہ آپ نے ان کے جنتی ہونے کی بشارت سب کے سامنے دی لیکن ایثار کے سلسلے میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ادا سب سے الگ اور نرالی تھی۔ اس وفا کے پتلے کے ہمراہ ہر وہ چیز تھی جس کے ہونے سے کسی شخص کو دنیا میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے یعنی اس کے ساتھ کنیز و غلام تھے۔ سونے وچاندی کے سکے بھی اور ہر قسم کا سامان بھی۔ خوبصورت سموں والے گھوڑے، اونٹ، خچر اور گدھے۔ غرض اس کا کل اثاثہ ، گھر کی ایک ایک چیز اس کے ہمراہ تھی۔ آنحضرت دلیل لی کہ ہم نے جب یہ دیکھا تو فرمایا کہ اے بندہ خدا، کچھ گھر والوں کا بھی تو خیال کرنا چاہئے تھا۔ یہ بات سن کر وہ شخص جو عشق و محبت کی تمام چھپی ہوئی کیفیات سے باخبر تھا۔ یوں کہنے لگا۔ اے وہ عظیم ہستی ، جس کے نور سے چاند اور ستارے روشنی حاصل کرتے ہیں اور اسے وہ بزرگ ذات کہ اگر تو نہ ہوتا تو خدا اس کائنات کو تخلیق ہی نہ کرتا جس طرح پروانے کے لئے شمع کا ہونا کافی ہے اور جس طرح بلبل کو صرف پھول کی تمنا ہوتی ہے میرے اور میرے اہل و عیال کے لئے صرف رسول ملی یتیم کی ذات ہی بہت ہے۔ یہ وہ دولت اللہ ہے کہ جس کے بعد اور کسی چیز کی طلب ہی دل میں نہیں رہتی۔ اس نظم کے ذریعے اقبال نے مسلمانوں کو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی پیروی میں اسلام کی عظمت تو اور مسلمانوں کے اجتماعی مفاد کے لئے ایثار قربانی سے کام لینے کا سبق دیا ہے۔ 

سوال نمبر : 3 کیا قومی مفاد سے صرف نظر کر کے انفرادی ترقی مفید ہو سکتی ہے ؟ دلیل بیان کیجیے۔ 

جواب

اقبال اور قومی مفاد

علامہ اقبال اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ ایک مضبوط اور خوشحال قوم صرف تب ہی وجود میں آسکتی ہے جب اس کے تمام افراد اپنی ذاتی ترقی کے 

ساتھ ساتھ قومی مفاد کو بھی مد نظر رکھیں۔ علامہ اقبال نے اپنی کئی نظموں اور تقریروں میں اس خیال کو واضح کیا ہے۔ ان کی نظم " نذیرہ میں ، وہ ایک ایسے شخص کی کہانی بیان کرتے ہیں جو اپنی ذاتی دولت اور طاقت کے حصول پر اتنا مر تکز ہے کہ وہ اپنے ارد گرد کی دنیا کے لیے بے خبر ہو جاتا ہے۔ آخر کار ، وہ ایک خالی اور بے معنی زندگی گزارتا ہے۔ ایک اور نظم "خواب زبیر " میں، اقبال ایک ایسے شخص کے خواب کا بیان کرتے ہیں جو ایک عظیم رہنما بنے کا خواہشمند ہے۔ تاہم، اس کا خواب جلد ہی ٹوٹ جاتا ہے اور وہ حقیقت میں جاگ جاتا ہے، جو ایک عام آدمی ہے۔ یہ خواب اقبال کے اس خیال کی عکاسی کرتا ہے کہ انفرادی ترقی صرف تب ہی کامیاب ہو سکتی ہے جب وہ ایک بڑے مقصد کی خدمت کرے۔ علامہ اقبال نے یہ بھی کہا ہے کہ قومی مفاد اور انفرادی ترقی ایک دوسرے کے متضاد نہیں ہیں۔ در حقیقت، وہ ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔ جب افراد اپنی ذاتی ترقی پر توجہ مرکوز کرتے ہیں، تو وہ قوم کے لیے قیمتی اثاثے بن جاتے ہیں۔ اور جب وہ قومی مفاد کو مد نظر رکھتے ہیں، تو وہ ایک ایسی معاشرے میں رہنے اور کام کرنے کے قابل ہوتے ہیں جو ان کی اپنی ترقی کی حمایت کرتا ہے۔ علامہ اقبال کے خیالات آج بھی اتنے ہی متعلقہ ہیں جتنے کہ وہ ان کے زمانے میں تھے۔ ایک ایسے دور میں جب ہم انفرادیت اور خود مختاری پر اتنا زور دیتے ہیں، یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ہم ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ ہماری انفرادی ترقی صرف تب ہی کامیاب ہو سکتی ہے جب ہم قومی مفاد کو بھی مد نظر رکھیں۔ 

فرد قائم رابط ملت سے ہےفرد اور جماعت کے باہمی ربط کو اقبال نے ایک خوب صورت شعر میں بیان کیا ہے۔ کہ فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں ! موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیںظاہر ہے موج کا دریا کے بغیر ہو نانا ممکن ہے بالکل اسی طرح فرد بھی قوم کے بغیر اپنے وجود کی شناخت کھو بیٹھتا ہے۔ 

پیوستہ رہ شجر سے: اب ایک اور مثال پر غور کیجئے شاخ کو اگر درخت سے کاٹ دیا جائے تو کیا وہ دوبارہ ہری ہو سکتی ہے ؟ کیا اس پر پتے نکل سکتے ہیں ؟ پھول اور پھل لگ سکتے ہیں ؟ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شاخ پر صرف اسی صورت میں بہار آسکتی ہے جب وہ درخت کے ساتھ مضبوطی سے جڑی رہے بالکل اسی طرح فرد بھی اگر جماعت سے علیحدہ ہو جائے تو نقصان اٹھاتا ہے اور جماعت کی ترقی اور خوشحالی میں اس کا حصہ نہیں رہتا۔ گویا جماعت کا وجود افراد کی وجہ سے ہے اور افراد کی بقا اور ترقی جماعت کے دم سے۔ دونوں ساتھ ساتھ رہیں، اور ایک دوسرے کے نفع و نقصان میں شریک رہیں تب ہی دنوں ترقی کرتے ہیں اور دونوں کو استحکام حاصل ہوتا ہے اور ایک خوشحال اور صحت مند قوم وجود میں آتی ہے۔ 

اسلام اور اجتماعیت

فرد اور جماعت کا تعلق جس پر اقبال نے اتنازور دیا ہے اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔ اسلام میں فرد کی ذاتی تربیت کو بھی اہمیت دی گئی ہے۔ لیکن زیادہ تاکید اور زور اجتماعیت یعنی مل جل کر رہنے اور اکٹھے ہو جانے پر دیا گیا ہے۔ احادیث میں جماعت کے قیام اور مرکز کی مضبوطی پر بہت زور دیا گیا ہے۔ جیسے کہ حضور طی تم نے فرمایا کہ " اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے شیطان جماعت سے بھاگتا ہے۔ " ایک اور جگہ فرمایا کہ "اے مسلمانو ! جماعت کے ساتھ رہو۔ کیونکہ جو جماعت سے علیحدہ ہو اوہ دوزخ میں جا گرا۔ "ہم دیکھتے ہیں کہ جب تک مسلمانوں نے اسلام کی اس روح کو اپنی اجتماعی زندگی میں برقرار رکھا، ان کی ملی قوت اور وحدت برقرار رہی لیکن جب مسلمانوں میں رنگ نسل، ملک اور وطن کے امتیازات اہمیت حاصل کر گئے تو ملت کا شیرازہ بکھر گیا۔ اور مسلمان دنیا میں اپنی تمام قوت اور عظمت سے محروم ہو کر رسوا اور محکوم ہو گئے۔ 

سوال نمبر : 4 نظم "فاطمہ بنت عبد اللہ کا تعارف کراتے ہوئے اس ظلم پر تبصرہ کیجیے۔

 کریں۔ 

جواب

فاطمہ بنت عبد الله

یہ نظم علامہ اقبال نے 1912 میں لکھی۔ ستمبر 1911ء میں انگریزوں کے اشارے پر اٹلی نے طرابلس (لیبیا) پر حملہ کر دیا۔ ترکی طرابلس والوں کی مدد کرنا چاہتا تھا مگر وہ اس قدر طاقتور نہ تھا کہ انگریزوں کی ناکہ بندی کو توڑ سکے۔ طرابلس کے دینی اور سیاسی رہنما شیخ سنوسی نے اس جنگ کو جہاد قرار دے دیا۔ اس اعلان کے ساتھ ہی طرابلس کے مسلمان بے سر و سامانی کے باوجود میدان میں نکل آئے۔ فاطمہ بنت عبد اللہ بھی ان میں شامل تھی۔ اس وقت فاطمہ کی عمر 14 سال تھی۔ اس نے کمزور ناتواں ہونے کے باوجود جہاد میں حصہ لیا اور زخمیوں کو پانی پلاتی ہوئی شہید ہوئی۔ یہ نظم اس لحاظ سے منفر د ہے کہ اس میں غم اور خوشی دونوں جذبے مل کر ایک ہو گئے ہیں۔ کسی کا مرنا اپنی جگہ ایک المناک واقعہ ہے۔ اور اگر مرنے والا جوان ہو تو یہ دکھ اور بھی شدید ہو جاتا ہے۔ لیکن علامہ اقبال فاطمہ بنت عبد اللہ کی شہادت پر مغموم بھی ہیں اور خوش بھی۔ مغموم اس لئے کہ مرنے والی ایک نوجوان اور معصوم لڑکی ہے اور خوش اس لئے کہ اس کی شہادت میں ملت اسلامیہ کی نئی زندگی کی خوشخبری پوشیدہ ہے۔ اس کی شہادت اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ قوم ابھی پوری طرح مردہ نہیں ہوتی ہے اور اس میں خدا کے رسول ہیم کے لئے جان دینے والے موجود ہیں۔ اس نظم میں اقبال کہتے ہیں کہ آج ملت اسلامیہ راکھ کے ایک ڈھیر کی طرح ہے۔ لیکن یہ بات امید افزاء ہے کہ اس راکھ کے ڈھیر میں فاطمہ بنت عبد اللہ جیسی چنگاریاں بھی دبی ہوئی ہیں۔ جو ملت کو نئی زندگی دے سکتی ہیں۔ فاطمہ تیری قبر سے ایک نئی قوم نمودار ہو رہی ہے۔ ملت اسلامیہ میں نئی نسل کے لوگ ہر طرف پھیلی ہوئی تاریکی میں روشنی کی نوید ہیں۔ تو نے ملت کے لئے جان دے کر اپنے مقصد حیات کو پالیا ہے۔ اس نظم سے علامہ اقبال کی بصیرت کا بھی پتہ چلتا ہے کہ وہ بہت پہلے طرابلس (لیبیا) کی خاک سے ایک نئی قوم کو جنم لیتا ہوا دیکھ رہے تھے

۔ سوال نمبر : 5 اقبال اور نئی نسل کے عنوان پر مضمون تحریر کیجیے۔ 

جواب

اقبال اور نئی نسل

علامہ اقبال کو مسلمان نوجوانوں سے بہت سی امیدیں وابستہ تھیں۔ وہ نوجوانوں کو ملت کے روشن مستقبل کی امید سمجھتے تھے۔ اسی لئے وہ نوجوانوں کی عمدہ تعلیم و تربیت کے لئے فکر مند تھے۔ انہوں نے نوجوانوں کے لئے متعدد نظمیں لکھیں۔ اقبال کو شاعر فردا کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں "کل کا شاعر یعنی اقبال کی توجہ حال سے زیادہ مستقبل پر ہے ان کا دل اس یقین سے مالا مال ہے کہ آنے والا کل زیادہ روشن اور اجلا ہو گا۔ حال کی محرومیوں او رناکامیوں سے وہ پست ہمت ہونا نہیں جانتے اور ہر حالت میں مستقبل کے روشن امکانات پر نظر رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے زمانے کے ہر عمر کے لوگوں سے مخاطب ہوتے ہوئے بھی نوجوانوں سے ہمکلام ہونے میں خاص کشش محسوس کرتے ہیں۔ ملت کی تعمیر نو میں نوجوانوں کا کردار : جوانوں کی طاقت اور ہمت انہیں اس قابل بناتی ہے کہ وہ مخالف حالات کا مردانہ وار مقابلہ کریں۔ اس لئے ملت کی تعمیر نو میں ان کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اقبال کے خیال میں کسی قوم کی ترقی و عروج کا باعث مال و دولت کی کثرت نہیں ان نوجوانوں کا وجود ہے جو ذہنی اور جسمانی اعتبار صحتمند ہوں اور پاکیزہ اخلاق و کردار کے مالک ہوں۔ 

قوم را سرمایہ اے صاحب نظر اقبال کا پیغام نئی نسل کے ناممال او فر زند ہائے تندرست نیست از نقد و تماش و سیم و زر تر دماغ و سخت کوش و چاق و چست 

اقبال کہتے ہیں کہ نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی خودی سے آگاہ ہوں۔ اپنی فطری صلاحیتوں سے واقف ہوں۔ اور ان کی نشو و نما کیلئے محنت کریں۔ سخت کوشی اور خطر پسندی کی عادت اپنائیں۔ تن آسانی سے گریز کریں۔ خطروں سے الجھنے اور مشکلات کا مقابلہ کرنے کی ہمت پیدا کریں۔ اسلام کے روحانی اور اخلاقی اصولوں کو اپنائیں اور شریعت کی عائد کردہ پابندیوں کو دل و جان سے قبول کریں صرف اسی صورت میں انہیں وہ آزادی مل سکتی ہے جو ان کے علاوہ دوسروں کے لئے بھی فائدہ مند ثابت ہو گی۔ ناموافق حالات سے مایوس نہ ہوں۔ ملت کے روشن مستقبل پر یقین رکھیں اور دنیا میں عزت سے زندہ رہنا اور مرنا سیکھیں

۔ نوجوانوں کو اپنی تاریخ سے آگاہ ہونے کی تلقین

اقبال نے نوجوانوں کو اپنی تاریخ سے آگاہ ہونے کی ہدایت بھی کی ہے۔ ان کے خیال میں تاریخ کسی قوم کے حافظے کی مانند ہے حافظے سے محرومی کا نتیجہ تباہی و بربادی ہے۔ آباؤ اجداد کے کارناموں سے واقفیت کا مطلب یہ ہے کہ ہم بیجا فخر میں مبتلا ہو کر کے بن کر نہ بیٹھ جائیں بلکہ ہم میں یہ احساس پیدا ہونا چاہئے۔ کہ ہم ایک عظیم قوم کی شاندار روایات کے وارث ہیں لہذا ہمیں چاہئے کہ ہم ان روایات کو ترقی دیں تاکہ ہماری قوم از سر نو عظمت سے ہمکنار ہو سکے۔ 

دوسری قوموں کی علمی و تہذ یہی ترقی سے آگاہ ہونے کی ہدایت

اقبال نے نوجوانوں کو دوسری قوموں کی تہذیبی و علمی ترقی سے آگاہ ہونے کی ہدایت کی ہے لیکن یہ بھی تاکید کی ہے کہ وہ کسی سے مرعوب نہ ہوں، کسی کی اندھی تقلید نہ کریں مشرق ہو یا مغرب وہ سب پر تنقیدی نظر ڈالیں اچھی چیزوں کو قبول کریں اور اسی سلسلے میں اسلام کی اخلاقی و روحانی تعلیمات کو ہر گز نظر انداز نہ کریں، عصر حاضر کی علمی و سائنسی ترقی کی داغ بیل مسلمانوں نے ہی ڈالی تھی اگر ہم اپنے آباؤ اجداد کی علم دوستی اور حقیقی ذوق اپنے اندر پیدا کریں تو ہم علمی و سائنسی ترقی میں اپنا مقام پیدا کر سکتے ہیں۔ خطاب به جوانان اسلام اپنی نظم " خطاب بہ جوانان اسلام " کے ذریعے اقبال چاہتے ہیں کہ مسلمان نوجوانوں کو احساس دلائیں کہ زمانہ ماضی میں مسلمانوں کی ترقی و عروج کا باعث ان کا عمدہ اخلاق اور پختہ کردار تھا اور اس کی بدولت انہیں پوری دنیا میں امتیازی شان حاصل تھی لیکن نئی نسل اپنے بزرگوں کی تہذ یہی روایت سے ناواقف ہے اس رویے نے مسلمانوں کو زوال سے دو چار کر رکھا ہے۔ نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ اپنی اور اپنے بزرگوں کی حالت کا موازنہ کریں اپنی اصلاح کریں اور نئے سرے سے عروج حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ 

ایک نوجوان کے نام :

 نصاب میں شامل یہ مختصر نظم بال جبریل سے لی گئی ہے۔ اقبال نے اس نظم میں جو باتیں کہی ہیں وہ عموماً ہمارے ان نوجوانوں میں صادق آتی ہیں۔ جو مغرب سے بہت زیادہ متاثر ہیں مغربی تہذیب کی اندھی تقلید نے ان کی صلاحیتوں کو ناکارہ کر دیا ہے۔ وہ مال و دولت کی فراوانی اور دنیاوی شان و شوکت ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں جب کہ سچے مسلمانوں نے ہمیشہ اعلیٰ اخلاقی اقدار کو ترجیح دی ہے اور اللہ پر ایمان کی بدولت بے نیازی کی روش اپنا کر بلند مقام حاصل کیا ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ اے نوجوان تو اگر عروج حاصل کرنا چاہتا ہے تو تجھے یہ نعمت مغربی تہذیب کو اپنانے سے نہیں مل سکتی۔ اس مقصد کے لئے تجھے بے نیازی کی صفت اختیار کرنا ہو گی۔ بے نیازی مرد مومن کی صفت ہے۔ جو شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہے وہ اس کے سوا کسی کا محتاج بننا پسند نہیں کرتا۔ یہی چیز اس کی قوت و طاقت کا باعث ہے۔ اقبال نے اپنے مثالی نوجوان کو شاہین کے نام سے پکارا ہے۔ کیونکہ شاہین میں وہ تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ جو اقبال کے خیال میں مسلمان نوجوان میں ہونی چاہئیں۔ 

 

Post a Comment

0 Comments