Ticker

6/recent/ticker-posts

Advertisement

سیرت نبوی سے تربیت اولاد کے رہنما اصول

 

    


بچوں کی تربیت کے لئیے مربی اوراستاد کو خود کچھ اصول و ضوابط کا پابند ہونا ضروری ہے۔ تاکہ جب وہ بچوں کی اصلاح کرے تو خود بھی مجسم کامل ہواور بچہ اصلاح لے بھی، وگرنہ اصلاح کار آمد ثابت نہ ہوگی۔اس سلسلہ میں آنحضرت ﷺ کی تعلیمات ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔ جو اصول و ضوابط ہادی عالم ﷺ نے دیئے وہ تا قیامت قابل عمل ہیں۔

بچوں  کی اچھی تربیت جہاں ان کے لیے کامیابی  کی ضامن ہوتی ہے، وہیں یہ معاشرے اور ملک و قوم کی ترقی میں بھی اہم کردارادا کرتی ہے۔ ماں باپ کو اولاد کی تربیت میں ہرگز سستی اور کوتاہی نہیں کرنی چاہیے، اولاد کی تربیت ماں باپ کی ذمہ داری ہے۔ سیرت نبویہﷺ سے ایسی ہی چند  روشن مثالیں ذیل  میں بیان کی جاتی ہیں۔

اول : اسوہ حسنہ

بچوں کی تربیت میں اہم ترین کردار والدین کا ہوتا ہے ،بچہ کم عمری میں اپنے ارد گرد جو کچھ دیکھتا ہے اسے سیکھنے کی کوشش کرتا ہے، اس لیے والدین کو اپنے طرز عمل میں بہت محتاط رہنے ، ناپسندیدہ کاموں سے گریز کرنے کی ضرورت ہے ۔ بچوں کو جھوٹ بولنے سے منع کرنا ہو تو نصیحتوں کے ساتھ ساتھ خود بھی اس سے پرہیز کی ضرورت ہے جس کے نتیجے میں  بچے سچ بولنے کے عادی ہوجائیں گے۔ بچے کے افکار کی بنیادوالدین رکھتے ہیں لہذا انہیں چاہئے کہ زندگی کے معاملات میں  وہ بچوں کے سامنےسچائی شرافت اور عملی کردارکا ایک عمدہ نمونہ پیش کریں   کیونکہ بچے انکی نقالی کرتے ہیں۔رسول کریم ﷺ کا فرمان ہے۔

مَا مِنْ مَوْلُودٍ إِلَّا يُولَدُ عَلَى الفِطْرَةِ، فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ، أَوْ يُمَجِّسَانِهِ [1]

ترجمہ: ہر بچہ فطرتِ سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے۔ پس اسکا باپ ہے جو اسے یہودی یا عیسائی یا مجوسی بنا دیتا ہے۔

یعنی بچے کے والدین اسکے دین کے بارے میں زیادہ ذمہ دار ہیں جیسا کہ رسول اللہﷺ کا فرمان ہے۔ اسی طرح رسول اللہﷺ کا فرمان ہے۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ مَنْ قَالَ لِصَبِيٍّ، تَعَالَ هَاكَ، ثُمَّ لَمْ يُعْطِهِ فَهِيَ كَذْبَةٌ[2]

"جو شخص بچے سے یہ کہے ادھر آؤ(یہ چیزلے لو)پھراسے کچھ نہ دےتو یہ بھی جھوٹ ہے۔ "

اسی طرح عبداللہ بن عامر ﷜سے مروی ہے ۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرٍ، أَنَّهُ قَالَ: دَعَتْنِي أُمِّي يَوْمًا وَرَسُولُ اللَّه صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَاعِدٌ فِي بَيْتِنَا، فَقَالَتْ: هَا تَعَالَ أُعْطِيكَ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا أَرَدْتِ أَنْ تُعْطِيهِ؟ قَالَتْ: أُعْطِيهِ تَمْرًا، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَا إِنَّكِ لَوْ لَمْ تُعْطِهِ شَيْئًا كُتِبَتْ عَلَيْكِ كِذْبَةٌ۔[3]

ترجمہ:ایک دن میری والدہ نے مجھے بلایا اس وقت رسول اللہ ﷺ ہمارے گھر میں تشریف فرما تھے ، والدہ نے کہا  ادھر آؤ تمھیں کچھ دوں آنحضرت ﷺ نے فرمایا "تم اسے کیا چیز دینا چاہتی ہو؟" انہوں نے کہا میں اسے ایک کھجور دینا چاہتی ہوں آپﷺ نے فرمایا"دیکھو اگر تم سے کچھ نہ دیتی تو جھوٹ بولنے کا گناہ لکھا جاتا"۔

اسی طرح عبداللہ بن عباس﷜ جب چھوٹے تھے تو بیان فرماتے ہیں۔

قال: بت ليلة عند ميمونة بنت الحارث خالتي، وكان رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عندها في ليلتها، قال: فقام رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يصلي من الليل، فقمت عن يساره قال: فأخذ بذؤابتي فجعلني عن يمينه[4]

فرماتے ہیں: میں نے اپنی خالہ کے ہاں رات گزاری آنحضرتﷺ رات کے پچھلے پہر میں جاگے اور ایک پرانی لٹکی ہوئی مشک سے وضو فرمایا پھر نماز شروع کی میں بھی اٹھا اسی طرح وضو کر کہ آنحضرت ﷺ کے ساتھ بائیں طرف کھڑا ہو گیا نبی اکرمﷺ نے مجھے پھیر کے دائیں طرف کر دیا۔

گویا بچے نے اسوہ حسنہ کی پیروی کی اور وضو رسول اللہﷺ کے طریقے کے مطابق کیااور نمازادا کی  یہ فوراََ عبداللہ بن عباس ﷜کے ذہن پر نقش ہوا۔

دوم:مناسب وقت

تربیت کے لئے مناسب وقت کا فائدہ اٹھانا چاہیئے کیونکہ ایسے وقت میں دی گئی نصیحت حتیٰ المقدور کار گر ثابت ہوتی ہے۔اور بچہ اس سے زیادہ اثر لیتا ہے۔اس سے بچوں اور والدین دونوں کے واسطے آسانی بھی رہتی ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل اوقات میں اصلاحی کلمات ارشاد فرمائے ہیں۔

دوران سفریا بوقت تفریح

رسول اللہﷺ بعض اوقات دوران سفر یا کسی تفریحی موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بچوں کی تربیت کرتے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عباس ﷜سے مروی ہے ۔

قَالَ: كُنْتُ خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا، فَقَالَ: يَا غُلَامُ إِنِّي أُعَلِّمُكَ كَلِمَاتٍ،احْفَظِ اللَّهَ يَحْفَظْكَ، احْفَظِ اللَّهَ تَجِدْهُ تُجَاهَكَ، إِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلِ اللَّهَ، وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ[5]

"فرماتے ہیں ،میں رسول اللہﷺ کے ساتھ سواری پر پیچھے بیٹھا تھا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا اے لڑکے کیا میں تجھے یہ نہ بتاوں کہ تو اللہ کے حقوق کی حفاظت کرو اللہ تمہاری حفاظت کرے گا۔"

اس حدیث میں ہمیں کئی اہم نکات ملتے ہیں

1.       کہ کھلی فضا میں بچے کا ذہن کسی چیز کو قبول کرنے کے لئےنسبتاََ زیادہ  تیار ہوتا ہے۔ اور ترو تازگی کے عالم میں وہ چیز ذہن نشین جلد ہوتی ہے۔[6]

2.       پھر یہ کہ  جب آپ ﷺ نے فرمایا کہ اے لڑکے کیا میں تجھے یہ نہ بتاوں تواس طرح  آپ ﷺنے ذہنی طور پر بھی بچےکی نفسیاتی حالت کو بھانپتے ہوئے اسے اپنی طرف متوجہ کیا تا کہ وہ اس بات کا اثر لینے کو خود تیار ہو

3.       کسی بھی مرّبی کے لئیے بچوں کی نفسیات کا علم رکھنا ضروری ہے جو ہمیں اس حدیث مبارکہ میں نظر آتا ہے۔

امام مسلم ﷫نے نقل کیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن جعفر﷜ فرماتے ہیں۔

"رسول اللہ ﷺنے مجھے سواری پر پیچھے بٹھایا اور پھر مجھ سے خفیہ انداز میں بات کی جس کا ذکر میں کسی سے نہ کروں اور رسول اللہﷺ کو بطور پردہ اپنی حاجت کے لئے سب سے زیادہ جو پسند تھا وہ بلند جگہ اور کھجور کے درختوں کا جھنڈ تھا"[7]

کھانا کھاتے وقت

کھاتے وقت بچے ناشائستگی کو اپناتے ہیں اور آداب کی خلاف ورذی کرتا ہےاس دوران اگر والدین پاس نہ ہوں اور اصلاح نہ کریں تو بچہ بگاڑ کا شکار ہوگااور والدین اس موقع کو بھی گنوا بیٹھیں گے۔

رسول اللہﷺ بچوں کے ساتھ کھاناتناول فرماتے اور ساتھ میں انکی غلطوں کو ملاحظہ کر کے انکی اصلاح بھی فرماتے۔عمرو بن ابی سلمہ ﷜سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے مجھے کھانے کہ دسترخوان پر فرمایا۔

يَا غُلاَمُ، سَمِّ اللَّهَ، وَكُلْ بِيَمِينِكَ، وَكُلْ مِمَّا يَلِيكَ[8]

"بیٹا !  بسم اللہ پڑھ کہ کھاو اور دائیں ہاتھ سے کھاو اور اپنے سامنے سے کھاو"

 ایسا ہی ایک واقع سنن دار قطنی میں ہے جسے عاصم بن کلیب[9]﷫نے اپنے والد کی روایت کو نقل کیا ہے ۔

قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي جِنَازَةٍ فَانْتَهَيْنَا إِلَى الْقَبْرِ, قَالَ: فَرَأَيْتُهُ يُوصِي الْحَافِرَ , قَالَ: «أَوْسِعْ مِنْ قِبَلِ رَأْسِهِ أَوْسِعْ مِنْ قِبَلِ رِجْلَيْهِ, فَلَمَّا انْصَرَفَ تَلَقَّاهُ دَاعِي امْرَأَةٍ مِنْ قُرَيْشٍ , فَقَالَ: إِنَّ فُلَانَةَ تَدْعُوكَ وَأَصْحَابَكَ, قَالَ: فَأَتَاهَا فَلَمَّا جَلَسَ الْقَوْمُ أُتِيَ بِالطَّعَامِ فَوَضَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ وَوَضَعَ الْقَوْمُ فَبَيْنَا هُوَ يَأْكُلُ إِذْ كَفَّ يَدَهُ , قَالَ: وَقَدْ كُنَّا جَلَسْنَا بِمَجَالِسِ الْغِلْمَانِ مِنْ آبَائِهِمْ , قَالَ: فَنَظَرَ آبَاؤُنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَلُوكُ أَكَلْتُهُ فَجَعَلَ الرَّجُلُ يَضْرِبُ يَدَ ابْنِهِ حَتَّى يَرْمِيَ الْعِرْقَ مِنْ يَدِه[10]

ترجمہ:"ایک دفعہ ایک عورت نے دعوت کا پیغام بھجوایا تو رسول اللہﷺ نے اسے قبول فرمایا اس وقت آپ ﷺایک جنازے میں شرکت کے بعد واپس تشریف لا رہے تھے لہذا رسول اللہ ﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ اس عورت کے گھر گئے بڑوں کے ساتھ بچے بھی شامل تھے آپ ﷺ نے کھاناتناول فرمانا شروع کیا تو سب شروع ہوئے جب آپ ﷺنے ہاتھ روک لیا تو سب نے ہاتھ روک لیا اوربچوں کو بھی روکا۔"

بیماری کے وقت

بیماری سنگدل شخص کو بھی موم بنا دیتی ہے۔ ایسے ہی بیماری کے عالم میں بچے میں دو چیزیں اکٹھی ہوتی ہیں "اخلاق اور عقیدہ کی اصلاح " ایک فطرت کی وجہ سے دوسری رقت قلب کی وجہ سے۔

اسی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نبی کریم ﷺ نے اصلاح کا طریقہ بتلایاہے۔چنانچہ حضرت انس بن مالک ﷜سے مروی ہے۔

كَانَ غُلَامٌ يَهُودِيٌّ يَخْدُمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَرِضَ، فَأَتَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُهُ، فَقَعَدَ عِنْدَ رَأْسِهِ فَقَالَ لَهُ: أَسْلِمْ، فَنَظَرَ إِلَى أَبِيهِ وَهُوَ عِنْدَهُ، فَقَالَ لَهُ : أَطِعْ أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْلَمَ[11]

ترجمہ: "ایک یہودی بچہ رسول اللہﷺ کی خدمت میں رہتا ایک روز وہ بیمار ہو گیا رسول اللہﷺ اسکی عیادت کو گئے آپ ﷺ اسکے سرہانے بیٹھے اور بچے سے کہا کہ اسلام قبول کر لو وہ بچہ اپنے باپ کی طرف دیکھنے لگا تو اس کے باپ نے کہا ابو القاسم(یعنی رسول اللہﷺ) کی اطاعت کرو چناچہ وہ بچہ مسلمان ہو گیا۔"

آپﷺنے بچے کو جب وہ حاضر خدمت رہتا دعوت دین نہیں دی اور جب مناسب موقع ملا آپﷺ نےاسکی بیمار پرسی کی اور دعوت دین دی۔ لہذا اس سے سبق ملتاہے کہ صبروتحمل  سےمناسب وقت کا انتظار کیا جائے۔ اسکے علاوعہ بھی موقع ہو سکتے ہیں۔

سوم: عدل و مساوات

اپنے مقصد تربیت کو حاصل کرنے کہ لئے والدین کو بچوں کے درمیان عدل و مساوات کو قائم رکھنا بھی ضروری ہے اگر ایک یا دو بچوں کی طرف طبعی میلان زیادہ ہو گا تو باقی بچوں میں بد اخلاقی اور بد مزاجی پروان چڑھے گی جس کے نتیجے میں والدین کو ان بچوں کا سامنا کرنے میں مسائل سے دو چارہونا

پڑے گا۔ایسا ایک واقعہ امام بخاری  ﷫نے نقل کیا ہے۔

عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، أَنَّ أَبَاهُ أَتَى بِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنِّي نَحَلْتُ ابْنِي هَذَا غُلَامًا، فَقَالَ: أَكُلَّ وَلَدِكَ نَحَلْتَ مِثْلَهُ، قَالَ: لَا، قَالَ: فَارْجِعْهُ[12]

نعمان بن بشیر﷜سے مروی ہےکہ انکے والد انہیں ساتھ لیکر کے رسول اللہﷺ کی بارگاہ اقدس میں گئےاور عرض کیا میں نے اپنے اس بیٹے کو خصوصی طور پر عطیہ دیا ہےآپﷺ نے پوچھا "کیا اس کی طرح سب بچوںکو عطیہ دیا ؟" انہوں نے کہا "نہیں"،آپﷺ نے فرمایا" پس واپس لوٹا دو"

ایک روایت کے مطابق آپ ﷺ نے گواہ بننے سے بھی انکار فرما دیا۔آپﷺ نے فرمایا"مجھے تم نا انصافی پر گواہ نہ بناو"پھر آپ نے فرمای تمہیں یہ پسند ہے کہ وہ فرماں برداری میں بھی برابری اختیار کریں؟" تو انہوں نے کہا  "کیوں نہیں" آپﷺ نے فرمایا"پھر ایسا نہ کرو"[13]

ایک روایت میں رسول اللہﷺ نے یہ الفاظ بھی ارشاد فرمائے۔

اتَّقُوا اللَّهَ وَاعْدِلُوا فِي أَوْلَادِكُمْ [14]

ترجمہ:"خدا سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان عدل و انصاف کرو"

چہارم:حقوق کی پاسداری

بچوں کے حقوق کی ادائیگی اور ان کی جائز ضروریات کو پورا کرنا ایسی چیز ہے جو انکے دل ودماغ میں مثبت سوچ پیدا کرتی ہے۔اس سے ان میں زندگی کے متعلق تصور ابھرتا ہے کہ یہ ایک لین دین کا نام ہےاس طرح حق لینے کا جذبہ ان میں بیدار ہو گا۔[15]

اور وہ اس سلسلہ میں حق گوئی اور جراتِ اظہار سیکھیں گےدگرنہ ان میں پسپائی آجائے گی۔ اس سے بچہ اپنا حق لے کر اپنا فرض بھی ادا کرنے کو تیار ہو گا۔ جو کہ اسے اچھا شہری بنانے میں معاون ثابت ہو گا۔

صحیحین میں حضرت سہل بن سعد﷜ سے مروی ہےکہ

أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِشَرَابٍ فَشَرِبَ مِنْهُ وَعَنْ يَمِينِهِ غُلَامٌ وَعَنْ يَسَارِهِ أَشْيَاخٌ، فَقَالَ لِلْغُلَامِ: " أَتَأْذَنُ لِي أَنْ أُعْطِيَ
هَؤُلَاءِ؟ "، فَقَالَ الْغُلَامُ: لَا وَاللَّهِ لَا أُوثِرُ بِنَصِيبِي مِنْكَ أَحَدًا، قَالَ فَتَلَّهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي يَدِهِ.[16]

رسول اللہﷺ کی خدمت میں پینے کی چیز پیش کی گئی آپﷺ نے اس میں سے کچھ نوش فرمایا ،ایک بچہ آپ ﷺکی دائیں طرف بیٹھا تھا اور بائیں طرف کچھ بڑے بزرگ بیٹھے تھے۔آپﷺ نے اس لڑکے سے فرمایا کہ "کیا تم اجاذت دیتے ہو کہ میں ان بزرگوں کو برتن دے دوں؟ "اس لڑکے نے کہا نہیں، یا رسول اللہﷺاللہ کی قسم میں آپ کے بچے ہوئے اپنے حصے پر کسی کو ترجیح نہیں دوں گا، رسول اللہﷺنے برتن اسکے ہاتھ میں تھما دیا۔"

اس حدیث میں ہمیں رسول اللہﷺبچے کو اسکا حق دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اگرچہ کہ پہلے اسے اپنا حق کسی اور کو دینے کی درخواست بھی تھی مگر جب بچے نے اپنا حق کسی کو نہیں دیا تو آپ ﷺ نے اسے دباؤ بھی نہیں دیا اور اسے اسکے حق سے پوری طرح لطف اندوز ہونے کا موقع دیا۔ ایک روایت میں یہ فضل بن عباس﷜ کا واقعہ ہے۔          

ایسی ہی ایک روایت مصنف عبد الرزاق میں ہے کہ اگر صاحب علم ہو تو بچہ امامت کے فرائض بھی سرانجام دے گا کیونکہ یہ اسکا حق ہے، جیسا کہ حدیث کے الفاظ ہیں۔حضرت ابو سلمہ ﷜سے روایت ہے  کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

إِذَا كَانَ ثَلَاثَةٌ فِي سَفَرٍ فَلْيَؤُمَّهُمْ أَقْرَؤُهُمْ، وَإِنْ كَانَ أَصْغَرَهُمْ، فَإِذَا أَمَّهُمْ فَهُوَ أَمِيرُهُمْ[17]

ترجمہ: جب سفر میں تین آدمی ہوں تو جو ان میں بڑا قاری ہو وہ انکو نماز پڑھائے اگرچہ کہ وہ عمر میں سب سے چھوٹا ہو اور وہی انکا امیر ہوگا۔

پنجم:اولادکےحق میں دعا

والدین بچوں کے لئے مناسب وقت کی تلاش میں رہیں جس میں وہ انکے حق میں دعا کریں یہ بھی تربیت کابنیادی اصول ہے یہ انبیاء﷩ کی سنت بھی ہے اور رسول کریمﷺ کا معمول بھی۔اور بچوں کو کسی صورت بد دعا نہ دی جائے۔آپﷺ کا فرمان ہے۔

لَا تَدْعُواعَلَى أَنْفُسِكُمْ، وَلَا تَدْعُواعَلَى أَوْلَادِكُمْ، وَلَا تَدْعُواعَلَى خَدَمِكُمْ، وَلَا تَدْعُواعَلَى أَمْوَالِكُمْ [18]

ترجمہ:تم اپنے آپ کو کبھی بد دعا نہ دواور اپنی اولاد کو بھی بد دعا نہ دیا کرواور اپنے خادموں کو بھی بد دعا نہ دو اور اپنے اموال کو بھی بد دعا نہ دو

یہ حکم اس لیے دیا  کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ دعا کی قبو لیت کا وقت ہو اور دعا قبول ہو جائے۔ پھر آنحضرت ﷺ کا معمول اقدس بچوں کے لئے دعا کرنے کا بھی تھا۔ آپ اکثر صحابہ اکرام کو دعا دیا کرتے تھے جیسا کہ بخاری شریف میں  ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عبدا للہ بن عباس کے لیئے دعا فرمائی۔جو تربیت کے انتہائی عالم کو بھی ظاہر کرتی ہے۔

عن ابن عباس قَالَ: ضَمَّنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  إِلَى صَدْرِهِ، وَقَالَ "اللَّهُمَّ عَلِّمْهُ الْحِكْمَةَ[19]

ابن عباس ﷜نے کہا : مجھے نبی کریم ﷺ نے سینے سے لگایا اور فرمایا " اے اللہ ! اسے حکمت کا علم عطا فرما۔"

ایسا ہی ایک واقعہ ام سلیم ﷞ کا ملتا ہے کہ انہوں نے رسول اللہﷺ سے حضرت انس ﷜کے لئے دعا کروائی ۔تو آپ ﷺنے دعا فرمائی

فَقَالَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ: يَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، إِنَّ لِي خُوَيْصَّةً، قَالَ: مَا هِيَ؟ قَالَتْ: خَادِمُكَ أَنَسٌ، فَمَا تَرَكَ خَيْرآخِرَةٍ وَلَا دُنْيَا إِلَّا دَعَا لِي[20]

ام سلیم ﷞نے عرض کی کہ میرا ایک بچہ لاڈلا بھی ہے (اس کے لیے بھی  دعافرما دیں) آپ ﷺفرمایا کون ہے؟ انہوں نے کہا آپ کا خادم انس ﷜پھر آپ ﷺ نے دنیا اور آخرت کی کوئی خیر و بھلائی نہ چھوڑی جس کی ان کے لیے دعا نہ کی ہو۔

دعا اس لئے بھی ضروری ہے کہ بچہ کا مستقبل اس سے وابستہ ہے۔اس بھلائی میں تربیت کا عنصر بھی شامل حال ہے۔جو والدین نےکی،تاکہ انکی اس تربیت کابچےپرعملی طورپےاطلاق ہو۔

ششم:کھلونےاورتحائف          

                بچوں کا معمول ہوتا ہے مختلف کھلونوں سے کھیلنا  رسول اکرم ﷺ بچوں کے اس معمول سے مکمل واقفیت رکھتے ہوئے انکی دل جوئی کے لئے انہیں فراہم بھی کرتے اور ان کی خیر خبر بھی لیتے۔جیسا کہ انس بن مالک کے چھوٹے بھائی ابو عمیر کا واقعہ ملتا ہے کہ چڑیا سے کھیلا کرتے تھے۔[21]

                 انصار کی خواتین بچوں کو اون کا بنا ہوا کھلونا دیتی تھیں [22]  جسکا اصل مقصد انکی روزہ کی تربیت کرنا تھا۔تاکہ کھیل میں لگ کر بھوک کو برداشت کرتے ہوئے روزہ مکمل کریں۔

کھیل کود کا سامان یا سامانِ تفریح بچوں کو مہیا کرنا والدین کے لئے لازم ہے ۔ وہ بچے کی عمر اور طاقت کے مطابق ہو اور ایسا ہو کہ جس سے بچہ ذہنی اور جسمانی تربیت حاصل کرےاور اسکی عقل و شعور میں ترقی کا باعث ہواور جس سے اخلاقی گراوٹ نہ ہو ۔[23]

کھیلوں میں بچوں کومختلف نوعیت کے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان سے نمٹنے کے لئے جب وہ اقدام کرتا ہے یا سوچ بچار سے کام لیتا ہے اور اپنی استعداد لے مطابق اس معاملے کو حل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسکے تجربات اور مشاہدات میں اضافہ ہوتا ہے یہ چیز بچے کی تخلیقی تربیت میں معاون

اور کار گر ثابت ہوتی ہے۔[24]

ہفتم:نیکی کے کاموں  میں  تعاون

                بچوں کو مناسب ماحول مہیا کرنے سے بچے از خود نیکی کی راہ پر چلتے ہیں اور ان میں کسی بھی بھلائی کے کام کو کرنے کا جذبہ خاطر خواہ پروان چڑھتا ہے بچے کی اصلاح کے لئے اسے سازگار ماحول دینا بھی والدین پر لازم  ہے اگر وہ نیکی کے کاموں میں بچوں کی معاونت کریں گے تو وہ آئندہ بھی نیکی کی راہ چلیں گے۔ رسول اللہﷺاس معاملے میں والدین کے لیئے دعا بھی کرتے تھے۔رسول اللہﷺ نے فرمایا

رَحِمَ اللَّهُ وَالِدًا أَعَانَ وَلَدَهُ عَلَى بِرِّهِ[25]

"اللہ تعالیٰ اس والد پر اپنی رحمت کرے جو نیکی کے کاموں میں اپنے بچوں کی معاونت کرتا ہے۔"

ایسی ہی ایک روایت طبرانی نےحضرت ابو ہریرہ سےنقل کی ہے۔

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَعِينُوا أَوْلَادَكُمْ عَلَى الْبِرِّ، مَنْ شَاءَ اسْتَخْرَجَ الْعُقُوقَ لِوَلَدِهِ[26]

رسول اللہﷺ نے فرمایا: "نیکی کے کاموں میں اپنی اولاد کی مدد کیاکرو ، جو چاہتا ہے کہ اسکی اولاد نا فرمانی سے بازآ جائے۔"

                بچے کو نصیحت اس قدر اثر نہیں کرے گی جس قدر والدین کی معاون و اسوہ متاثر کرے گا۔ اور اس طرح سے وہ بچوں کو نافرمانی اور معصیت سے بھی بچا سکتے ہیں اور ان میں نیکی کو بھی پروان چڑھا سکتے ہیں۔

ہشتم:ترک ملامت

                رسول اللہﷺ کی سیرت کی روشنی میں  تربیت نرمی اور شفقت کی بنیاد پر ہو، نہ کہ  بے حد ملامت وسختی اور نہ ہی ضرورت سے زیادہ تنبیہ کارویہ اختیار کی جائے ۔چنانچہ حضرت انس﷜ کی روایت ہے

قال خَدَمْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشْرَ سِنِينَ، فَمَا قَالَ لِي أُفٍّ[27]

ترجمہ: "میں نے رسول اللہ ﷺ کی دس سال تک خدمت کی لیکن آپ نے کبھی مجھے اف تک نہیں کہا۔"

رسول اللہﷺکی یہ شفقت بھی تربیت کے لئے واضح ہدایت ہے۔والدین کی کثرت ملامت بچے کو نفسیاتی مسائل میں گھیر دیتی ہے اور اصلاح لینے کی بجائے بچے بغاوت اور بدی کا شکار ہونے لگتے ہیں ۔بے حد ملامت اور بچے کے عیب کا کثرت سے اظہار اس کے لئے برے افعال کو آسان بنا دیتا ہے۔

حاصل بحث

                والدین کےلئے لازم ہےکہ وہ رسول اللہﷺکی تعلیمات کو اپناتےہوئےاولاد کی تربیت کریں۔اللہ تعالیٰ ولی ہوگا۔کیونکہ اللہ رب العزت نےکریم نبیﷺکوہدایت کاروشن سرچشمہ بناکرکےبھیجاہے۔ہمیں آپﷺکی تعلیمات کواپناکراپنےمعاملاتِ زندگی کوآسان بناناچاہیےاوراولادکی تربیت ان اصولوں پرکرنی چاہیےجن کادرس رسول اللہﷺنےدیاہے۔اس طرح اللہ ہماری مدددفرمائے گا۔




[1]۔صحیح البخاری،ج2،ص94،رقم الحدیث1358: مسند احمدبن حنبل،ج14 ،ص 233، رقم الحدیث8562

[2]۔ مسنداحمد بن حنبل،ج15،ص520،رقم الحدیث9836

[3]۔سنن ابی داود،ج 4،ص298، رقم الحدیث4991

[4]۔صحیح بخاری،ج7،ص163، رقم الحدیث5919

[5]۔جامع ترمذی، ج4، ص 667، رقم الحدیث2516

[6]۔سوید، محمد نور بن عبد الحفیظ،تربیت اولاد کانبوی انداز اور اس کے زریں اصول،دار القلم، لاہور،س ن،ص 147

[7]۔ مسلم بن حجاج، نیشاپوری،صحیح مسلم،دار احیاء تراث العربی، بیروت،لبنان،س ن،ج4، ص 2306، رقم الحدیث 3012: سنن ابن ماجہ،ج 1، ص 122،رقم الحدیث339

[8]۔ البانی،محمد ناصرالدين ،صحيح الجامع الصغير وزیادتہ،المكتب الإسلامي،ج2،ص1318 :صحیح بخاری،ج7،ص68، رقم الحدیث 5376: صحیح مسلم،ج3،ص1599،رقم الحدیث2022

[9]۔پورا نام عاصم بن کلیب بن شہاب بن مجنون الجرمی ہے۔ کوفہ سے تعلق ہے۔بنی قضاعہ سے تعلق ہے، حضرت عمر اور حضرت علی﷞ سے روایات لی ہیں۔ کثیر روایات میں ثقہ راوی ہیں۔خلیفہ ابو جعفر کے ابتدائی عہد میں وفات پائی۔

(بحوالہ: الصبحي،محمد بن عبد اللہ، فتنہ مقتل عثمان بن عفان ﷜،عمادة البحث العلمي جامعہ اسلامیہ، مدینہ منورہ ،طبع دوم،1424ھ،ج1،ص 384: أبو داود ، سليمان بن الأشعث، سؤالات أبي عبيد الآجري أبا داود السجستاني في الجرح والتعديل، عمادة البحث العلمي جامعہ اسلامیہ، مدینہ منورہ ،طبع اول،1403ھ، ج1،ص167)

[10]۔سنن دار القطنی،ج 5، ص 514،رقم الحدیث4763

[11]۔ صحیح بخاری، ج2، ص94،رقم الحدیث1356

[12] ۔صحیح بخاری، ج3، ص157،رقم الحدیث 2586

[13]۔صحیح بخاری، ج3، ص171،رقم الحدیث2650

[14]۔صحیح مسلم،ج3،ص1242، رقم الحدیث1623

[15]۔تربیت اولاد کانبوی انداز اور اس کے زریں اصول،ص 156

[16]۔ صحیح بخاری،ج3،ص161،رقم الحدیث 2451: صحیح مسلم،ج3،ص 1603،رقم الحدیث2030 : مالک بن انس ، موطا امام مالک،مؤسسة زايدبن سلطان آل نهيان للأعمال الخيرية والإنسانية،أبو ظبي، طبع اول،1425ھ،ج5،ص1356،رقم الحدیث:ابو عوانہ،يعقوب بن إسحاق،مستخرج ابی عوانہ،دارالمعرفہ،بیروت،طبع اول 1419ھ،ج5،ص158،رقم الحدیث 8230 :ابن االاثير، مبارك بن محمد بن محمد ،جامع الاصول فی احادیث الرسول، مکتبہ الحلوانی ،مکتبہ دار البيان ،طبع اول،ج5،ص 84،رقم الحدیث3103

[17]۔ عبد الرزاق بن ھمام،ابوبکر،مصنف عبدالرزاق،مکتب الاسلامی، بیروت،طبع ثانی،1403ھ،ج5،ص165،رقم الحدیث9256

[18]۔ تبريزي،محمد بن عبد الله الخطيب،مشكاة المصابيح،مکتب اسلامی،بیروت،لبنان،طبع سوم،1985م،ج2،ص692، رقم الحدیث2229

[19]۔ صحیح بخاری،ج5،ص27،رقم الحدیث3756

[20]۔ صحیح  بخاری، ج3،ص41، رقم الحدیث1982

[21]۔صحیح بخاری، ج8،ص30،رقم الحدیث6129

[22]۔صحیح بخاری، ج3،ص37،رقم الحدیث1960

[23]۔ تربیت اولاد کانبوی انداز اور اس کے زریں اصول،ص 16

[24]۔فریدہ سجاد،مسز،بچوں کی تعلیم و تربیت اور والدین کا کردار،منہاج القرآن پرنٹرز،لاہور،دسمبر 2016،ص 104

[25]۔ ابن ابی شیبہ،ابو بكر ،عبد الله بن محمد،الكتاب المصنف فی الاحاديث والآثار،مكتبہ الرشد،الرياض،طبع اول،1409ھ،ج5، ص219،رقم الحدیث 25415: الكُلينی،محمد بن يعقوب ،ابی جعفر،اصول الكافی، دار الكتب الاسلاميہ ،شمسیہ،طھران،ایران، 1365ھ،ج6،ص50 

[26]۔ طبرانی،ابوالقاسم،سليمان بن احمد ، معجم الاوسط،دار الحرمین، قاہرہ،مصر،س ن،ج4،ص237،رقم الحدیث4076

[27]۔ صحیح بخاری،ج8،ص14،رقم الحدیث6038

Post a Comment

0 Comments