Ticker

6/recent/ticker-posts

Advertisement

سورۃ لقمان کیوں نازل ہوئی؟


یہ سورت مبارکہ  مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی، جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کے بارے میں کفار مکہ کی مخالفت اپنے شباب پر تھی اور کافروں کے سردارحیلوں بہانوں اور پر تشدد کاروائیوں سے اسلام کی نشر واشاعت کا راستہ روکنے کی کوششیں کررہے تھے ،قرآن کریم کا اثر انگیز اسلوب جب لوگوں کے دلوں پر اثر انداز ہوتا تو وہ ان کی توجہ اس سے ہٹانے کے لئے انہیں قصے کہانیوں اور شعر وشاعری میں الجھا نے کی کوشش کرتے تھے، جس کا تذکرہ اس سورت کے شروع(آیت نمبر:۶) میں کیاگیا ہے۔

حضرت لقمان اہل عرب ایک بڑے عقل مند اور دانشور کی حیثیت سے مشہور تھے ،ان کی حکیمانہ باتوں کو اہل عرب بڑاوزن دیتے تھے ،یہاں تک کہ شاعروں نے اپنے اشعار میں ان کا ایک حکیم کی حیثیت سے تذکرہ کیا ہے،قرآن کریم نے اس سورت میں واضح فرمایا ہے کہ لقمان جیسے حکیم اور دانشور جن کی عقل وحکمت کا تم بھی لوہا مانتے ہو وہ بھی توحید کے قائل تھے ،او رانہوں نے اللہ تعالی کے ساتھ کوئی شریک ماننے کو ظلم عظیم قرار دیا تھا،او راپنے بیٹے کو وصیت کی تھی کہ تم کبھی شرک مت کرنا ،اس ضمن میں اس سورت نے ان کی اور بھی کئی قیمتی نصیحتیں ذکر فرمائی ہیں، جو انہوں نے اپنے بیٹے کو کی تھیں۔

 دوسری طرف مکہ مکرمہ کے مشرکین کا حال یہ تھا کہ وہ اپنی اولاد کو توحید او رنیک عمل کی نصیحت تو کیا کرتے انہیں شرک پر مجبور کرتے تھے ،او راگر ان کی اولاد میں سے کوئی مسلمان ہوجاتا تو اس پر دباؤ ڈالتے تھے کہ وہ دوبارہ شرک کو اختیار کرلے،اس مناسبت سے حضرت لقمان کی نصیحتوں کے درمیان( آیات نمبر:۱۴،۱۵ میں) اللہ تعالی نے ایک بار پھر وہ اصول بیان فرمایا ہے جو سورۂ عنکبوت (۸:۲۹) میں بھی موجود  ہے کہ والدین کی عزت اور اطاعت اپنی جگہ لیکن اگر وہ اپنی اولاد کو شرک اختیار کرنے کے لئے دباؤ ڈالیں تو ان کا کہنا ماننا جائز نہیں،اس کے علاوہ یہ سورت توحید کے دلائل اورآخرت کی یاد دہانی کے مؤثر مضامین پر مشتمل ہے ۔

خلاصہ سورۃ لقمان

سورہ لقمان مکی سورۃ ہے، 34آیات اور 4 رکوع ہیں۔یہ اکیسویں پارہ کے دسویں رکوع سے شروع ہو کر تیرھویں رکوع تک ہے۔ترتیب نزول کے لحاظ سے نمبر 57 اور ترتیب توقیفی کے اعتبار سے 31 ویں سورۃ ہے۔سورۃ کے دوسرے رکوع میں وہ نصیحتیں درج ہیں جو حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو کی تھیں،اسی وجہ سے اس کا نام ’’لقمان‘‘ ہے۔یہ سورۃ اس دور میں نازل ہوئی جب اسلام کو دبانے کیلئے مکہ میں ظلم و جبر کا آغاز ہو چکا تھا۔ اس میں شرک کی لغویت و نامعقولیت اور توحید کی صداقت و معقولیت سمجھائی گئی ہے۔

ارشاد ہے‘‘قرآن ان لوگوں کے لئے ہدایت اور رحمت ہے جو نماز اور زکواۃ ادا کرتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔وہی فلاح پانے والے ہیں ۔بیشک ہم نے لقمان کو حکمت سکھائی کہ وہ اللہ کا شکر ادا کرے تو جو شخص شکر ادا کرتا ہےوہ اپنے بھلے کو کرتا ہے اور اگر کوئی کفر اختیار کرتا ہے تو اللہ بے پروا ہے اور حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو توحید کا سبق دیا تھا اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے کی تاکید کی ہے۔اس کی ماں نے اسے پیٹ میں رکھا، کمزوری جھیلی اور دو برس تک دودھ پلایا۔ان دونوں کی اطاعت ضروری ہے سوائے شرک کے اور اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے۔

حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو برائی سے بچنے کے لئے فرمایا کہ وہ برائی خواہ رائی کے برابر ہو اس سے بھی بچو، نماز قائم کرو، اچھی بات کا حکم کرو اور بری بات سے رکو، اور اگر کوئی مصیبت  تم پرآ پڑے تو اس پر صبر کرو۔کسی سے بات کرنے میں اپنا رخسار کج نہ کرو، زمین پر اکڑ کر مت چلو، میانہ چال چلو، آواز پست کرو کہ سب سے کرخت آواز گدھے کی ہوتی ہے۔ اللہ ہی نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق کی پھر بھی وہ اللہ کو نہیں مانتے۔اگر زمین کے سب درخت قلم بن جائیں اور سمندر سیاہی بن جائیں پھر بھی اللہ کے کلمات پورے نہیں لکھے جا سکتے۔بیشک اللہ ہی جانتا ہے کہ قیامت کب ہوگی، مینہ کب برسے گا، ماؤں کے پیٹ میں کیا ہے، کوئی کل کیا حاصل کریگا اور کون کہاں مریگا، بیشک اللہ جاننے والا خبروالا ہے۔

Post a Comment

0 Comments