Ticker

6/recent/ticker-posts

Advertisement

خواتین حق وراثت سے محروم کیوں؟

 



لوگوں میں  خوفِ الٰہی کا فقدان      

آج کا انسان اسی دنیا اور اسی زندگی کو سب کچھ سمجھتا ہے۔ انسان عجلت پسندہونے کے ناطے اسی دنیا کے ثمرہ کو سبھی کچھ مان چکا ہے۔ اپنی دنیا بنانے کے چکر میں اپنی آخرت  کو بگاڑتا چلا جا رہا ہے۔ اس دنیا کے تھوڑے فائدے کی خاطر ابدی اجر سے نا واقف ہو چکا ہے۔ وہ نہیں سمجھتا کہ اُسے اپنے تمام تر اعمال کی جوابدہی اپنے رب کے حضور دینی ہی دینی ہے۔ اس میں اللہ رب العزت کے حضور جوابدہی کے خوف کا فقدان ہے۔

قرآن مجید میں مختلف مقامات پر انسانوں کو اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کا پیغام دیا گیا ہے۔

ارشادِ الٰہی ہے:

﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيمٌ﴾ [1]

"لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو۔ کہ قیامت کا زلزلہ ایک حادثہٴ عظیم ہوگا۔"

دوسری جگہ اللہ رب العزّت نے فرمایا ہے:

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ﴾[2]

"اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو۔"

﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ وَاخْشَوْا يَوْمًا لَا يَجْزِي وَالِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلَا مَوْلُودٌ هُوَ جَازٍ عَنْ وَالِدِهِ شَيْئًا إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَلَا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ﴾[3]

"لوگو! اپنے رب سے ڈرو اور اس دن کا خوف کرو جس دن باپ اپنے بیٹے کو کوئی نفع نہ پہنچا سکے گا اور نہ بیٹا اپنے باپ کا ذرا سا بھی نفع کرنے وا ہوگا (یاد رکھو) اللہ کا وعده سچا ہے (دیکھو) تمہیں دنیا کی زندگی دھوکے میں نہ ڈالے اور نہ دھوکے باز (شیطان) تمہیں دھوکے میں ڈال دے۔"

 

وراثتی احکام میں علماء کی کوتاہی                                                

دینِ اسلام کے احکام میں سے انتہائی اہم حکم وراثت سے متعلق قوانین کو امتِ مسلمہ نے اجتماعی طور پر پسِ پشت ڈال دیا ہے۔ وراثت کے احکام نافذ العمل میں نہیں لائے جاتے۔ عام لوگوں کی جہالت و بے حسی تو ایک طرف خود علماءکرام بھی خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں، بلکہ اکثرو بیشتر خود بھی اس گناہ اور جرم میں ملوث ہوتے ہیں۔

مسلمانوں کی قانونِ میراث میں غفلت

امتِ مسلمہ اللہ تعالیٰ کے اہم ترین حکم "قانونِ میراث " سے اس قدر غفلت کا شکار ہو چکی ہے کہ انہیں اس کی اہمیت کا احساس اور شعور تک نہیں رہا۔ اپنی اسی غفلت کے سبب مسلمانوں نے اسلامی قانونِ میراث کو شجرِ ممنوعہ سمجھ کر ترک کر دیا ہے۔ مستحقین کو محروم رکھنے سے  بغض و عناد اور بد اعتمادی کی فضا پیدا ہوتی ہے۔ خانوادے برباد اور عدالتیں آباد ہوتی ہیں ۔کسی بھی وارث کو اس کے حق سے محروم کرنا احکامِ الٰہی کی صریح خلاف ورزی ہے۔ کسی وارث کو اس کا حق دینا احسان نہیں، بلکہ یہ تو  اللہ تعالٰی کے احکام کی اطاعت ہے۔ [4]

حضرت عبدالرحمٰن بن مہدی فرماتے ہیں:

"کہ میرے چچا کا انتقال ہوا تو میرے والد بےہوش ہو گئے، ہوش آنے پر فرمایا: "چٹائی کو ورثاء کے ترکے میں داخل کر دو۔"[5]

دینی احکام میں حیلہ سازی

لوگ اپنی جائیداد کو چالاکی سے بھی روک کر اس کے نفاذ میں رکاوٹ کھڑی کرتے ہیں۔ اس کی صورت یہ سامنے آتی ہے کہ زندگی میں ہی سارا سرمایا تقسیم کر دیتے ہیں۔  جائیداد کو صرف اپنی اولاد تک محدود رکھنا چاہتے کچھ لوگ دور رس سوچ رکھتے ہیں وہ    اپنی اس نیت سےزندگی میں ہی   بیٹوں اور بیٹیوں میں تقسیم کر دیتے ہیں، جس سے                        جائیدادبقیہ ورثاء تک منتقل نہیں ہوتی۔ اور باقی سب اپنے حق سے محروم رہ جاتے ہیں۔

وراثت سے محروم کرناقیامت کی ایک نشانی                                                                         

احادیث سے قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ملتی ہےکہ" وراثت تقسیم نہ کی جائے گی اور لوگوں کو مالِ غنیمت سے خوشی حاصل نہ ہو گی"صحیح مسلم کی روایت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔وراثت تقسیم نہ ہو گی تو لوگ جہاد نہیں کریں گے۔

حدثنا يحيي بن يحيي ، وابو كامل فضيل بن حسين كلاهما، ‏‏‏‏‏‏عن سليم، ‏‏‏‏‏‏قال يحيى:‏‏‏‏ اخبرنا سليم بن اخضر ، عن عبيد الله بن عمر ، حدثنا نافع ، عن عبد الله بن عمر : ان رسول الله صلى الله عليه وسلم " قسم في النفل للفرس سهمين وللرجل سهما ‏[6]

"سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غنیمت کے مال سے دو حصہ گھوڑے کو دلائے اور ایک حصہ آدمی کو۔"

روزِ قیامت کی رسوائی کا باعث حقداروں کا حق ادا نہ کرنا بنے گا۔ لوگ قربِ قیامت کھلے عام احکام کو پامال کرنے والے ہوں گے۔ حقوق العباد میں غفلت اور کوتاہی کرتے ہوئے ہر دوسرا انسان اپنے بھائی کے حق پر قبضہ کیے ہوئے ہو گا۔ لوگ قیامت کی ہولناکی سے بے پرواہ بنے بیٹھیں گےاور اس دنیا کی زندگی ہی کوسب کچھ سمجھیں گے۔

ان کا حال یہ ہو گا کہ اپنی ذمہ داریوں سے غافل دنیا کے مال پر سانپ بن کر مست بیٹھیں گے۔ دنیا کی زندگی میں مست، دنیا کی رنگینی میں مگن اور آخرت کے تصور سے بے بہرہ ہوں گے۔قُربِ قیامت میراث کا علم اُٹھا لیا جائے گا۔

علمِ میراث سے عدم واقفیت

ہمارے روزمرہ کے دینی معاملات کس قدر دین سے دور ہوچکے ہیں، جو شریعت کا حکم ہے اور جو دین کہتا ہے  اس سے رہنمائی لینا چھوڑ دی ہے ہمارا دین کیا کہتا ہے؟ اسے چھوڑ کر آج ہم نے عقل کو معیار بنا رکھا ہے۔ اکثریت کو دین کاعلم نہیں۔ ہمارے شب و روز دینِ اسلام سے ہٹ کر چل رہے ہیں۔ ہمارا کوئی بھی معاملہ ہو، دین کے احکام اس معاملہ سے متعلق کیا ہیں ہم رہنمائی نہیں لیتے۔ دین کے احکام  کی معلومات  نہ ہونے کی وجہ    سے اگرکوئی   کچھ پوچھ لے تو بتانا نہیں  آتا۔ قانونِ وراثت کی نا فہمی کی بناء پر بھی خاندانوں میں تنازعے جنم لیتے ہیں، جبکہ اللہ رب العزت نے ترکہ کی تقسیم کا نظام خود وضع فرمایا ہے۔ 

شرعی احکام سےبغاوت

قرآن مجید میں مختلف موضوعات مثلاََ قانون، اقتصادیات، معاشرتی اداروں اور اخلاقیات پر گفتگو کی ہے۔ اس نے فلکیات،تواریخ،جنگ ا ور صلح کے قواعد و ضوابط کا ذکر کیا ہے۔ اس نے فرشتوں، ستاروں، ہواؤں، سمندروں،پودوں، جانوروں اوریوم قیامت وغیرہ کے حالات پر بھی روشنی ڈالی ہے۔موضوعات کی اس کثرت کے باوجود اس کے مندرجات میں کہیں بھی کوئی تضاد یا تناقض نہیں ہے۔[7]

قرآن زندگیوں کو بدلنے کا نسخہ اور ہدایت و اصلاح کا کرشمہ ہے۔نبی اکرمﷺ نے قرآن کے بارے میں ارشاد فرمایا:

عن ابي مالك الاشعري، قال:‏‏‏‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ " الوضوء شطر الإيمان، ‏‏‏‏‏‏والحمد لله تملا الميزان وسبحان الله والحمد لله تملآن او تملا ما بين السموات والارض، ‏‏‏‏‏‏والصلاة نور، ‏‏‏‏‏‏والصدقة برهان، ‏‏‏‏‏‏والصبر ضياء، ‏‏‏‏‏‏والقرآن حجة لك او عليك، ‏‏‏‏‏‏كل الناس يغدو فبائع نفسه فمعتقها او موبقها[8]

"ابو مالک اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ  نے فرمایا: وضو آدھا ایمان ہے، اور الحمد لله اللہ کی حمد میزان کو ثواب سے بھر دے گا اور سبحان الله اور الحمد لله یہ دونوں بھردیں گے آسمانوں اور زمین کے درمیان کی جگہ کو یا ان میں سے ہر ایک بھر دے گا آسمانوں اور زمین کے درمیان کی ساری خلا کو اجر و ثواب سے، صلاة نور ہے، اور صدقہ دلیل اور کسوٹی ہے ایمان کی اورصبر روشنی ہےاورقرآن تمہارے حق میں حجت و دلیل ہے یا اور تمہارے خلاف حجت ہے۔ ہر انسان صبح اٹھ کر اپنے نفس کو فروخت کرتا ہے چنانچہ یا تو (اللہ کے یہاں فروخت کر کے) اس کو (جہنم سے آزاد کرا لیتا ہے، یا شیطان کے ہاں فروخت کر کےاس کو ہلاکت میں ڈال دیتا ہے۔"

وھو حبل اللہ المتین،۔۔۔۔۔۔[9]

ڈاکٹر سعد المرصفی کہتے ہیں:

"اِنَّ ھذاا لقرآن لیس مجرد کلام یتلی۔۔۔ ولکنہ دستور شامل کامل۔۔۔ دستور للتربیۃ، کما انہ دستور للحیاۃ العملیۃ"

"بےشک قرآن مجرد پڑھا جانے والا کلام نہیں ہے اور لیکن یہ مکمل آئین ہے،تربیتی نظام ہے۔ اسی طرح یہ زندگی کے لیے عملی شاہراہ ہے۔"[10]

معاملات سے متعلق، لوگ شریعت  کی طرف رجوع نہیں کرتے، شریعت کیا کہتی ہے، کن احکام کو ہم پر لاگو کرتی ہے، لوگ جاننے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ شریعت تو علمِ دین سیکھنا مرد و عورت پر فرض قرار دیتی ہے، لیکن لوگ شریعت پر عمل نہیں کرتے۔ لوگ کہتے ہیں کہ ہمارا مال ہے، ہم جیسا چاہیں اس میں تصرف کریں۔ارشاد الٰہی ہے: 

﴿قَالُوا یَا شُعَیبُ اَ صَلَا تُکَ تَاء مُرُکَ اَن نَترُکَ مَا یَعبُدُ آبَاءُنَا اَؤ اَن نَفعَلَ فَی اَموَالِنَا مَا نَشَا ءُ اِنکَ لَاَنتَ الحَلِیمُ الرَّشِیدُ  [11]

"انہوں نے جواب دیا کہ اے شعیب! کیا تیری صلٰوۃ تجھے یہی حکم دیتی ہے کہ ہم اپنے باپ دادوں کےمعبودوں کو چھوڑ دیں اور ہم اپنے مالوں میں جو کچھ چاہیں اس کا کرنا بھی چھوڑ دیں تو تو بڑا ہی با وقار اور نیک چلن آدمی ہے۔"

ہر ہر شعبہ میں رہنمائی کے لیے عالم کی ضرورت ہوتی ہے، کوئی شعبہ ایسا نہیں جس میں عالم کی ضرورت نہ ہو۔ اگر عالم کی ضرورت نہیں پڑ رہی تو سمجھ لیجیے کہ اس لیے ضرورت نہیں پڑ رہی، گویا آپ معاملات میں شریعت پر اور شریعت کے مطابق عمل کر ہی نہیں رہے۔

رسمِ جاہلیت، قرآن سے شادی

معاشرے کی تشکیل اور انسانیت کی تکمیل میں عورت کے اہم کردار کے پیشِ نظر اللہ تعالیٰ نے "سورہ النساء" میں اس کے حقوق کی نگہداشت اور مراعات کی تعیین فرما دی اور خاص احکام نازل فرما کر عورتوں کے حقوق و فرائض  مقرر کر دیئے۔

سورہ النساء میں ہی اسلام کے معاشرتی اور معاشی تصورات کے بنیادی اصول بیان کیے گئے ہیں۔ اسلام کی اپنی ثقافت اور معاشرت ہے، اسلام کی اپنی تہذیبی روایات اور معاشی اقدار ہیں،جو جاہلی اقدار اور مغربی روایات اور طور طریقوں سے بہت مختلف ہیں۔

ارشادِ خداوندی ہے:

﴿وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنْزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا أَوَلَوْ كَانَ الشَّيْطَانُ يَدْعُوهُمْ إِلَى عَذَابِ السَّعِيرِ﴾[12]

"اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی وحی کی تابعداری کرو تو کہتے ہیں کہ ہم نے تو جس طریق پر اپنے باپ دادوں کو پایا ہے اسی کی تابعداری کریں گے، اگرچہ شیطان ان کے بڑوں کو دوزخ کےعذاب کی طرف بلاتا ہو۔"

اللہ تعالیٰ ایک ایسا پاکیزہ معاشرہ قائم کرنا چاہتا ہے جس میں امن و سکون اور عدل و انصاف کی حکمرانی ہو۔ اللہ تعالیٰ نے کمزور افراد کے حقوق و مراعات کا خیال رکھنے کی بہت تاکید فرمائی ہے۔آپﷺ کے فیصلوں اور احکام  کے سامنے سر تسلیم خم کر دینے کو ایمان کی اساس و بنیاد ٹھہرایا گیا ہے۔

ارشاد الٰہی ہے:

﴿وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ﴾[13]

"اور اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔"

قرآن مجید میں دوسری جگہ ارشاد فرمایا:

﴿قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْكَافِرِينَ﴾[14]

"کہہ دیجئے! کہ اللہ تعالیٰ اور رسول کی اطاعت کرو، اگر یہ منہ پھیر لیں تو بے شک اللہ تعالیٰ کافروں سے محبت نہیں کرتا۔"

سندھ میں حق بخشوانے کی رسم سے وڈیرے اور نام نہاد گدی نشین کی جان وراثت دینے سے چھوٹ جاتی ہے۔لڑکی سے کہا جاتا ہے کہ وہ اقرار کرے کہ اس نے اپنا حق قرآن کو بخش دیا، اب چونکہ وہ اپنا حق قرآن کو بخش چکی ہے اسطرح اس کی شادی کسی مرد سے حرام قرار دے دی جاتی ہے۔

اس ظالمانہ رسم کو ختم کرنے کرنے کے لیے کوئی قانون موجود نہیں۔ اسلام میں ان ظالمانہ رسوم کی کوئی حقیقت نہیں، ایسے قوانین ہونے چاہیے جو ان غلط رسومات کا خاتمہ کر سکیں۔[15]

ہمارے ملک میں قبائلی سماجیات پختہ ہیں، جاگیرداروں نے اسے ہمیشہ اپنے مفاد کے لیے مستحکم رکھا ہے۔

اباحیت کا تصور/احکام شریعت میں نفسانی خواہشات کا اثر                                                        

حقوق دو طرح کے ہیں ایک حقوق اللہ اور ایک حقوق العباد۔ نماز ارکانِ اسلام میں سے ایک اہم رکن ہے،انسان کے ایمان کا عملی اظہارنماز کی ادائیگی سے ہوتا ہے۔ کتنے ہی لوگ اس اہم رکن اور ایمان کے اس اظہار سے غفلت کا شکار ہیں۔اللہ کےحقوق سےغفلت انسان کی گناہوں کی گٹھڑی کو بھاری کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔

اللہ کی ذات رحیم و کریم ہے، اپنی رحمت کے صدقے در گزر کا معاملہ کرنے پر قادر ہے۔ نماز ،روزہ ،حج کا تعلق اللہ کے حقوق سے ہے۔ حقوق کی دوسری قسم کا تعلق بندوں سے ہے۔ اللہ بندوں کے حقوق میں کوتاہی اور غفلت کو تب تک معاف نہ فرمائے گاجب تک بندہ خود معاف نہ کرے گا۔ 

عبادتوں کا تعلق اللہ کے تعلق سے ہے، اللہ تعالیٰ کے تعلق سے  گناہ ہو جائے تو وہ معاف کر دیتا ہے لیکن بندوں کے حقوق میں کوتاہی پر معافی نہیں۔ کچھ لوگوں کا معاملہ ایسا ہےکہ نماز پڑھنا تو بہت آسان،دوسرے ارکان کی ادائیگی بھی کر لیتے ہیں۔ فرائض کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ نوافل اور انفاق کی بھی کثرت، نمازیں پنجگانہ،رمضان کے فرض روزوں کے ساتھ ساتھ نفل روزون کی بھی کثر ت ہے، حج کی تعداد اس قدر کہ شمار کرنے سے باہر۔ بھائی اور باپ ہیں تو حاجی صاحب، صوفی صاحب لیکن اپنی بہنوں اور بیٹیوں کے حصے پر قبضہ کیے بیٹھے ہیں۔

نماز پڑھ لینا بھی قدرے آسان،مال و دولت کی کثرت سے ہر سال حج کر لینا بھی آسان، لیکن وراثت کی تقسیم کا شعور نہیں اور نہ ہی کوئی سوچ، وراثت مار کے بیٹھ ہوئے۔ جب علم الفرائض ہی چھوٹ گیا تو کیا حاصل۔نماز کا حکم بھی رب تعالیٰ نے دیا ،وراثت کی تقسیم کرنا بھی رب تعالیٰ نے فرض کہا ہے،لیکن ہمارا معاملہ یہ کہ سجدے تو ڈھیر کی تعداد میں کر ڈالے، لیکن حقدار کو اس کا حق دینا ہمارے نفس کی پسند کے خلاف ہوا تو شریعت کے آدھے احکام جو ہمارے نفس کو گراں نہ گزرے وہ تو ادا کر ڈالے،لیکن حاجی صاحب ہونے کے باوجودشریعت کے وہ احکام جو نفس پر گراں گزرے ان سے پہلو تہی کر کے اپنا دامن بچا لیا۔       

ہبہ کا جاہلانہ تصور                                                                         

"ہبہ"کا مطلب ہےکہ زندگی میں اگر اولاد کو کچھ دینا چاہا تو برابری کرنا ضروری ہے۔ "ہبہ" مطلب "تحفہ"ہبہ میں جب کچھ تحفہ میں دیا جائے تو قبضہ دینا ہبہ کے اصولوں میں سے ایک اصول ہے،جس کسی کو کوئی چیز ہبہ کی اس کی ملکیت نام کر کے قبضہ میں دینا، مالک بنا دینا ضروری ہوتا ہے۔ لڑکی اور لڑکے میں فرق روا نہیں رکھاجائے گا۔ لوگوں کو ہبہ اور وراثت کے فرق کا پتہ نہ ہونے کی وجہ سے وراثت جاری نہیں کی جاتی۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ جو اولاد میں بطور تحفہ دے دلا دیا ہے دراصل وہی ہماری میراث کی ہی تقسیم ہے۔اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں ہی اپنا ما ل تقسیم کرنا چاہے تو بظاہر شرع میں اس پر کوئی پابندی نہیں ،لیکن ایسا مال چونکہ ہبہ ہوتا ہے  وراثت نہیں ہوتا اس لیے اس پر قوانین وراثت صادق نہیں آتے۔ لوگ اپنی بیٹیوں کو جائیداد سے محروم کرنے کے لیے اپنی زندگی میں ہی اپنی ساری جائیداد اپنے بیٹوں کے نام کروا دیتے ہیں۔زندگی میں جائیداد تقسیم کر دینے کے کئی نقصانات ہیں: جیسے بیوی کو جائیداد تقسیم کر دی پھر کچھ عرصہ بعد طلاق ہو گئی اب یہ بات پچھتاوے کا باعث بن جائے گی کہ  بلا وجہ جائیداد ایک غیر وارث کو منتقل ہو گئی۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ   جائیداد جب وارثین میں تقسیم کر دی جاتی ہے ۔ہر وارث اپنا حصہ لے کر الگ ہو جاتاہے  اور اس تقسیم کرنے والے کے پاس اپنے ذاتی خرچ کے لیے بھی نہیں بچتا۔[16]

شریعت سے کُلی رہنمائی حاصل نہ کرنا

شریعت ایک مذہبی راستہ ہے،جہاں ایک بندہ اپنی زندگی کے پورے اظہار کے طور پر اللہ کا حکم بجا لاتا ہے۔

ارشاد خداوندی ہے:

﴿شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ اللَّهُ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَنْ يُنِيبُ﴾ [17]

"اسی نے تمہارے لئے دین کا وہی رستہ مقرر کیا جس (کے اختیار کرنے کا) نوح کو حکم دیا تھا اور جس کی (اے محمدﷺ) ہم نے تمہاری طرف وحی بھیجی ہے اور جس کا ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو حکم دیا تھا (وہ یہ) کہ دین کو قائم رکھنا اور اس میں پھوٹ نہ ڈالنا۔ جس چیز کی طرف تم مشرکوں کو بلاتے ہو وہ ان کو دشوار گزرتی ہے۔ الله جس کو چاہتا ہے اپنی بارگاہ کا برگزیدہ کرلیتا ہے اور جو اس کی طرف رجوع کرے اسے اپنی طرف رستہ دکھا دیتا ہے۔"

دوسری جگہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:

﴿وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَابِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ عَمَّا جَاءَكَ مِنَ الْحَقِّ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَكِنْ لِيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ إِلَى اللَّهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ﴾ [18]

"اور (اے پیغمبر!) ہم نے تم پر سچی کتاب نازل کی ہے جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور ان (سب) پر شامل ہے تو جو حکم خدا نے نازل فرمایا ہے اس کے مطابق ان کا فیصلہ کرنا اور حق جو تمہارے پاس آچکا ہے اس کو چھوڑ کر ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کرنا ہم نے تم میں سے ہر ایک (فرقے) کے لیے ایک دستور اور طریقہ مقرر کیا ہے اور اگر خدا چاہتا تو سب کو ایک ہی شریعت پر کر دیتا مگر جو حکم اس نے تم کو دیئے ہیں ان میں وہ تمہاری آزمائش کرنی چاہتا ہے سو نیک کاموں میں جلدی کرو تم سب کو خدا کی طرف لوٹ کر جانا ہے پھر جن باتوں میں تم کو اختلاف تھا وہ تم کو بتا دے گا۔"

شریعت اسلامی انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین سے کئی لحاظ سے مختلف و ممتاز ہے۔ انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین میں نقص ہوتا ہے جو مرور زمانہ کے ساتھ تغیرو تبدل کے مراحل سے گزرتے رہتے ہیں، اسی طرح انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کسی خاص قوم، وقت اور ملک کے لیے ہوتے ہیں، جو دوسری قوم، وقت اور ملک کے لیے موزوں نہیں ہو سکتے، جبکہ شریعت اسلامی تمام انسانیت اور تمام زمانوں کے لیے ہے اور کسی خاص قوم ، ملک یا زمانے سے مقید نہیں۔عام قوانین مخلوق کے وضع کردہ ہیں جبکہ شریعت کا وضع کرنے والا خالقِ کائنات ہے۔

احکامِ وراثت کے عدمِ نفاذ کے اسباب میں سے ایک بڑا سبب مالی معاملات میں شریعت سے رہنمائی حاصل نہ کرنا ہے۔ دین کو صرف نماز ،روزہ تک محدود کر لیا گیا ہے۔ لوگ مالیات کے معاملات کو دین کا حصہ سمجھتے ہی نہیں۔ وہ مال کو اپنی محنت کا ثمرہ سمجھ کر اپنے آپ کو حقیقی مالک سمجھ بیٹھتے ہیں۔وراثت سے متعلق ہمارے لیےقرآن و حدیث میں کیا احکامات مذکور ہیں؟ باپ دادا نہ خود دین کے اس حکم کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ ہی آگے اولاد کو  شریعت کی آگاہی دینے کا کوئی رواج پایا  جاتا ہے۔آج کل دنیاوی علوم کا حصول لازمی اور ضروری مانا جاتا ہے،لیکن  شریعت کے احکام جاننے اورسمجھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جاتی۔ لوگوں کی اکثریت وراثت کے علم سے نا واقف ہے۔

حدوداللہ کا توڑنا                                              

یُوں تو اللہ پاک نے جو کچھ ہمیں عطا فرمایا ہے وہ دراصل ہمارا امتحان ہے۔ تمام نعمتیں ہمیشہ کے لیے ہماری ملکیت نہیں۔ اللہ پاک نے جو کچھ اپنے فضل سے عطا کیا ہے وہ اس آزمائش کے لیےکہ کیا ہم ان اشیاء کے استعمال میں حدودو قیود کا خیال رکھ پا سکتے ہیں یا نہیں، تمام اشیاء ہمارے امتحان کے لیے عطا کی گئیں ہیں۔

یہ زندگی جس کے لیے ہم مرے جا رہے ہیں اصل زندگی نہیں، اصل زندگی تو وہ ہو گی جو مرنے کے بعد دوبارہ  جی اُٹھنے پر ملے گی۔اِس دنیا کی زندگی اُس دوسرے جہان کی دوسری زندگی کے امتحان کے طور پر ملی ہے۔یہ ایک ایسا امتحان ہے جس سے چاہے کوئی امیر ہو یا غریب، عالم ہو یا جاہل اس سے مستثنیٰ  نہیں۔

وراثت سے محروم کرنا گناہِ کبیرہ

لوگوں کی کثیر تعداد صغیرہ و کبیرہ گناہوں کی دلدل میں پھنس چکی ہے۔ عیش و عشرت میں مست، گناہوں پر جری و دلیر آج کا انسان اپنے انجام سے غافل ہو چکا ہے۔ اس کی آنکھوں میں گناہ اور ثواب کا فرق دھندلہ ہو چکا ہے۔ کمزورئ ایمان کا یہ حال ہے کہ گناہ کو گناہ سمجھنا تک چھوڑ دیا ہے۔ نیکی اور برائی کی پہچان نہیں رہی۔

انسان اپنے دامن کو گناہوں سے بھرتا جا رہا ہے۔ جہاں عبادات میں غفلت کاشکار ہو کرگناہ سمیٹتا جا رہا ہے وہاں معاملات میں بھی غافل بن کر گناہ کا مرتکب ہو رہا ہے۔ کبیرہ گناہوں میں سے ایک کبیرہ گناہ وراثت کھا جانا اور شرعی اصولوں کے مطابق وراثت کو تقسیم نہ کرنا ہے،وراثت کی تقسیم میں شرعی احکام کا خیال نہ رکھنا ہے۔ وراثت کو شریعت احکام کے مطابق تقسیم نہ کرنا حرام میں مبتلا ہونے کے مترادف ہے۔ ایسا کرنا "مال پر قبضہ کر لینا" چوری کے زمرے میں آتا ہے۔

احکامِ وراثت کے عدمِ نفاذ کا سبب گناہوں پر دلیر ہو جانا ہے کہ لوگ گناہ کو گناہ ہی نہیں سمجھتے۔ انہی گناہوں کے سبب ایک فرد دوسرے فرد کے حقوق سے کوتاہی برتتے ہوئے لوگوں کا مال نا حق طریقے سے کھاتا چلا جاتا ہے۔                                                  



[1] ۔ الحج  22: 1

[2] ۔ التوبہ 9: 119

[3] ۔ لقمٰن31: 33

[4] ۔ گوندل، مختار احمد،حافظ،مسائلِ میراث اور ہمارےے اُجڑتے خاندان ،ماہنامہ:حکمتِ بالغہ(حصہ ششم)،  جھنگ صدر، سلطان باہو پریس، اپریل 2018ء،  ص:18  

[5] ۔ محمدغزالی،امام، احیاء علوم الدین ،کراچی،اردوبازار،دارالاشاعت،س۔ن،ص:52 

[6] ۔ امام مسلم ،صحیح مسلم ،کتاب الجھادوالسیرِ،باب:کیفیۃ قسمۃالغنیمۃ بین الحاضرین،حدیث نمبر:4586 

[7] ۔ محمد فضل حق(مترجم)، اسلام دین فطرت،پاکستان:کراچی،جامعہ تعلیمات اسلامی، پوسٹ بکس:5425 ،  س۔ن،ص:88

[8] ۔ الترمذی،جامع الترمذی،کتاب الدعوات عن رسول اللہ ﷺ،حدیث نمبر:3517

[9] ۔ الترمذی،جامع الترمذی،کتاب فضائل القرآن،باب ما جآء فی فضل القرآن،حدیث نمبر:2906  

[10] ۔ سعد المرصفی، الدکتور،اسطورۃ الوطن الیھودی،کویت، مکتبۃ المنار الاسلامیہ،1992ء،ص:          106  

[11] ۔ ھود11: 87

[12] ۔ لقمان31: 21 

[13] ۔ آل عمران3: 132

[14] ۔ آل عمران3: 32

[15] ۔ عمری، جلال الدین،سندھ اور پنجاب میں عورت کی حیثیت ، م۔ن،س۔ن،ص:46  

[16] ۔ الازہری،ظہور اللہ، ڈاکٹر، علم میراث اور قانون وراثت ایکٹ ،ص:212

[17] ۔ الشوریٰ42: 13 

[18] ۔ المائدہ5: 48 

Post a Comment

0 Comments