Ticker

6/recent/ticker-posts

Advertisement

تذکرہ حضرت یونس قرآن کی روشنی میں


تذکرہ حضرت یونس قرآن کی روشنی میں



حضرت یونس علیہ السلام کا نام و نسب
امام ابو القاسم علی بن الحسن المعروف بابن عساکر  متوفی 571ھ لکھتے ہیں:
                حضرت یونس علیہ السلام لاوی بن یعقوب بن اسحق بن ابراہیم کے نواسے ہیں، ملک شام کے رہنے والے تھے اور بعلبک کے عمال میں سے تھے ۔ایک قول یہ ہے کہ یہ بچپن میں فوت ہو گئے تھے ۔ان کی والدہ نے اللہ کے نبی حضرت الیاس علیہ السلام سے سوال کیا ۔انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کو زندہ کردیا ۔ان کے سوا ان کی والدہ کی کوئی اولاد نہیں تھی ۔چالیس سال کی عمر میں حضرت یونس علیہ السلام نے اعلان نبوت کیا ۔وہ بنی اسرائیل کے بہت عبادت گزار بندوں میں سے تھے ۔وہ اپنے دین کو بچانے کے لیے شام چلے گئے اور دجلہ کنارے پہنچ گئے ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں اہل نینوا [1]کی طرف بھیجا۔
حضرت یونس علیہ السّلام دجلہ کے بائیں کنارے پر آباد عراقی شہر ’’موصل‘‘ میں پیدا ہوئے۔ آپؑ،حضرت ھودؑ کی اولاد میں سے تھے۔ موصل کے مقابل’’نینوا‘‘ شہر تھا، جو اُس زمانے میں اپنے عروج پر تھا اور وہاں قومِ ثمود آباد تھی۔ نینوا کی آبادی ایک لاکھ سے زیادہ تھی۔ جیسا کہ قرآنِ پاک میں ہے’’ اور اُن (یونسؑ) کو لاکھ یا اس سے زیادہ لوگوں کی طرف پیغمبر بنا کر بھیجا۔‘‘(سورۃ الصافات147) حضرت یونسؑ کی عُمر 28سال تھی، جب اللہ تعالیٰ نے اُنھیں اہلِ نینوا کی رُشد و ہدایت پر مامور فرمایا۔ مفسّرین کے مطابق، حضرت یونسؑ کا عہد 781 تا 741 قبلِ مسیح ہے۔
حضرت یونس علیہ السلام کا ذکر قرآن کریم میں
حضرت یونس علیہ السلام کاذکرقرآن کریم کی 6سورتوں میں آیاہے ۔
1)        سورۃ النساء
2)       سورۃ الانعام
3)      سورۃ یونس
4)      سورۃ الصافات
5)      سورۃ الانبیاء
6)       سورۃ القلم
ان میں پہلی چار سورتوں میں یونس علیہ السلام کانام مذکورہے ۔
اورآخری دوسورتیں میں “ذوالنون ” اور”صاحب الحوت “یعنی مچھلی والاکہہ کرپکاراگیاہے ۔
 نون، بڑی مچھلی کو کہتے ہیں، چوں کہ آپؑ کئی دن ایک مچھلی کے پیٹ میں رہے، اس لیے’’ مچھلی والا‘‘ کہا گیا۔ قرآنِ کریم کی دسویں سورت(یونس )آپؑ کے نام پر ہے۔
حضرت یونس علیہ السلام کا ذکر حدیث میں
حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
وَلاَ أَقُولُ: إِنَّ أَحَدًا أَفْضَلُ مِنْ يُونُسَ بْنِ مَتَّى "[2]
میں یہ نہیں کہتا کہ کوئی شخص یونس بن متی سے افضل ہے ۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ
«مَا يَنْبَغِي لِعَبْدٍ أَنْ يَقُولَ إِنِّي خَيْرٌ مِنْ يُونُسَ بْنِ مَتَّى وَنَسَبَهُ إِلَى أَبِيهِ»[3]
کسی بندے کا یہ کہنا مناسب نہیں  کہ میں یونس بن متی سے بہتر ہوں ۔اور ان کا نسب ان کے والد کی طرف منسوب ہے۔
حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
" مَنْ قَالَ: أَنَا خَيْرٌ مِنْ يُونُسَ بْنِ مَتَّى فَقَدْ كَذَبَ "[4]
جس شخص نے کہا کہ میں  یونس بن متی سے بہتر ہوں، اس سے جھوٹ کہا۔
معمولات حضرت یونس علیہ السلام
اسحاق بن بشیر نے اپنی سند کے ساتھ روایت کیا کہ
        i.            حضرت یونس علیہ السلام ایک نیک اور عبادت گزار بندے تھے ۔
      ii.            انبیاء کرام علیہم السلام میں ان سے زیادہ کوئی عبادت کرنے والا نہیں تھا۔
    iii.            وہ ہر روز کھانے سے پہلے تین سو رکعات نماز پڑھا کرتے تھے ۔
     iv.            اورہررات سونے سے پہلے تین سو رکعات نماز پڑھا کرتے تھے ۔
       v.            بہت کم زمین پر بستر لگاتے (سوتے )تھے ۔
     vi.            جب اہل نینویٰ میں گناہ بہت بہت زیادہ ہونے لگے تو انہیں وہاں رسول بنا کر بھیجا گیا۔[5]
حضرت یونس علیہ السلام کا اہل نینوی کی کی طرف مبعوث کرنا
حسن بیان کرتے ہیں
حضرت یونس علیہ السلام بنی اسرائیل کے انبیاء میں سے کسی نبی کے ساتھ تھے ۔اللہ تعالی نے اس نبی کی طرف وحی کی کہ حضرت یونس کو اہل نینویٰ کی طرف بھیج دیں۔تاکہ وہ ان کو میرے عذاب سے ڈرائیں اور انبیاء علیہم السلام کو لوگوں کی طرف تورات کے احکام نافذ کرنے کے لیے بھیجا جاتا تھا ۔حضرت یونس علیہ السلام کو بہت جلد غصہ آجاتاتھا۔وہ اہل نینویٰ کے پاس گئے اور ان کو اللہ کے عذاب سے ڈرایا ۔ان لوگوں نے حضرت یونس علیہ السلام کی تکذیب کی ،ان کی نصیحت کو مسترد کردیا اور پتھر مارمار کر ان کو اپنے علاقہ سے نکال دیا ۔حضرت یونس علیہ السلام وہاں سے چلے گئے ،بنی اسرائیل کے نبی نے کہا آپ دوبارہ  ان کے پاس جائیں ۔آپ دوبارہ گئے انہوں نے پہلے جیسا سلوک کیا ،پھر آپ تیسری بار گئے اور ان کو اللہ کے عذاب سے ڈرایا۔انہوں نے کہا تم جھوٹ کہتے ہو۔[6]
یونس علیہ السلام کا رب تعالیٰ کی اجازت کے بغیر بستی کو چھوڑ دینا
حضرت یونس علیہ السلام نے  قوم  کو” وحدہ لاشریک لہ “کی دعوت دی ،توانہوں نے حضرت یونس علیہ السلام  کوجھٹلایااوربتوں کی پرستش چھوڑنےسےانکارکردیااورایسےکفرپرڈٹے رہے پھرانہوں نےیونس علیہ السلام پرظلم وستم شروع کردیا۔انہیں دھمکیاں دی گئیں اوردعوت حق کامذاق اڑایا۔ تب مسلسل یونس علیہ السلام ان کی مخالفت سےمتاثرہوکرقوم سےخفا ہوگئے اوران کوتین دن میں آنےوالےدردناک عذاب الٰہی کی بددعادی ۔پھرتیسرادن آنےسے پہلے ہی آدھی رات کوبستی سےنکل گئے ۔
حضرت یونس علیہ السلام کا کشتی کا سفراور مچھلی کا آپ کو نگل جانا
حضرت یونس علیہ السلام فرات کےکنارے  پہنچے توایک کشتی کومسافروں سے بھراہواپایا۔حضرت یونس علیہ السلام  کشتی میں سوارہوگئے اورکشتی نے لنگراٹھایا۔پورے دن میں کشتی سمندرمیں سکون سےچلتی  رہی۔ اچانک اونچی اونچی لہریں اٹھنےلگیں ۔لوگوں نے اپناسازوسامان سمندرمیں پھینک دیاکہ کشتی کابوجھ کم ہوجائے لیکن کشتی کابوجھ پھربھی کم نہ ہوا۔ جب کشتی ڈگمگانے لگی توکشتی کے کےغرق ہونے کایقین ہونےلگا۔اہل کشتی نےاپنے عقیدے  کےمطابق کہا! کہ ایسامعلوم ہوتاہے کشتی میں کوئی غلام اپنےآقاسےبھاگاہواہے ۔جب تک اس کو اس کشتی سےجدانہ کیاجائے گانجات مشکل ہے ۔یونس علیہ السلام نےسناتو ان کوتنبیہ ہواکہ اللہ تعالیٰ کومیرانینویٰ سےوحی کاانتظارکیےبغیر اس طرح چلےآناپسندنہیں  آیااوریہ میری آزمائش کےآثارہیں ۔یہ سوچ کرانہوں نے اہل کشتی سےفرمایاکہ میں وہ غلام ہوں  جواپنےآقا سےبھاگا ہواہوں مجھے کشتی سےباہر  پھینک دو۔مگرملاح اوراہل کشتی نے ان کی پاکبازی سے اس قدر متاثرتھے کہ انہوں نے ایساکرنےسےانکارکردیا۔اورآپس میں یہ طے کیاکہ قرعہ اندازی کی جائے چنانچہ تین مرتبہ قرعہ اندازی کی گئی اورتینوں مرتبہ قرعہ اندازی میں حضرت یونس علیہ السلام کانام نکلاتب مجبور  ہوکرانہوں نے حضرت یونس علیہ السلام کودریامیں ڈال دیا یا وہ خوددریامیں کودگئے ۔اس وقت خدائے تعالیٰ نےمچھلی کوحکم دیاکہ انہیں نگل لویہ تمہاری غذانہیں ہے۔اس لیے ان کےجسم پرکوئی تکلیف نہیں ہونی چاہے مچھلی نےیونس علیہ السلام کواپنےپیٹ میں نگل لیا۔
یونس علیہ السلام نے جب مچھلی کے پیٹ میں خودکوزندہ پایاتوبارگاہ الٰہی میں اپنی ندامت  کااظہار کیاکہ کیوں وہ وحی الٰہی کاانتظارکیے بغیر اوراللہ سے اجازت لیے بغیر امت سے ناراض ہوکرنینویٰ  سےنکل آئے ۔حضرت یونس علیہ السلام نےمچھلی کےپیٹ میں اللہ کوپکارا ان پرتین اندھیرےاکھٹے ہوگئے تھے۔
1)        رات کااندھیرا
2)         مچھلی کےپیٹ کااندھیرا
3)      سمندرکااندھیرا[7]
اگروہ یہ تسبیح نہ فرماتے توقیامت تک مچھلی کےپیٹ میں رہتے ۔
مذکورہ بالا واقعہ کو قرآن کریم میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔
﴿ وَإِنَّ يُونُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ، إِذْ أَبَقَ إِلَى الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ، فَسَاهَمَ فَكَانَ مِنَ الْمُدْحَضِينَ، فَالْتَقَمَهُ الْحُوتُ وَهُوَ مُلِيمٌ، فَلَوْلَا أَنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ، لَلَبِثَ فِي بَطْنِهِ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ [8]
 اور بلاشبہ یونس [علیہ السلام] نبیوں میں سے تھے۔ جب بھاگ کر پہنچے بھری کشتی پر۔ پھر قرعہ اندازی ہوئی تو یہ مغلوب ہوگئے۔  تو پھر انہیں مچھلی نے نگل لیا اور وه خود اپنے آپ کو ملامت کرنے لگ گئے۔  پس اگر یہ پاکی بیان کرنے والوں میں سے نہ ہوتے۔ تو لوگوں کے اٹھائے جانے کے دن تک اس کے پیٹ میں ہی رہتے۔
اسی واقعہ کو قران کریم کی سورۃ الانبیاء میں اس طرح بیان کیا گیا ہے۔
﴿ وَذَا النُّونِ إِذْ ذَهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَنْ لَنْ نَقْدِرَ عَلَيْهِ فَنَادَى فِي الظُّلُمَاتِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ، فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَنَجَّيْنَاهُ مِنَ الْغَمِّ وَكَذَلِكَ نُنْجِي الْمُؤْمِنِينَ [9]
مچھلی والے (حضرت یونس علیہ السلام)کو یاد کرو! جبکہ وه غصہ سے چل دیا اور خیال کیا کہ ہم اسے نہ پکڑ سکیں گے۔ بالآخر وه اندھیروں کے اندر سے پکار اٹھا کہ الٰہی تیرے سواکوئی معبود نہیں ہے تویکتاہے،میں تیری پاکی بیان کرتاہوں بلاشبہ میں اپنے نفس پرخودہی ظلم کرنےوالا ہوں “ تو ہم نے اس کی پکار سن لی اور اسے غم سے نجات دے دی اور ہم ایمان والوں کو اسی طرح بچا لیا کرتے ہیں۔ 
فائدہ :
“جوبھی مسلمان اپنی کسی حاجت  میں یہ دعامانگے گااللہ ا س کی یہ دعاضرور قبول کریں گے  یہ قبول دعاؤں میں سے ایک دعاہے ۔
“ابن حاتم میں ہے کہ حضورﷺ فرماتےہیں  کہ
 جب یونس علیہ السلام نے یہ دعاکی تویہ کلمات عرش کےگردگھومنےلگی ،فرشتے کہنےلگے  کہ یہ بہت دوردازجگہ سےآوازآرہی ہے۔لیکن کان اس سے پہلے اس سے آشنا ضرورہیں۔آوازبہت ضعیف  ہے :اللہ تعالیٰ  نےحضرت یونس علیہ السلام کی دردبھری آوازکوسناتوفرمایا: کیاتم اس آوازکونہیں پہچانتے ؟ انہوں نے کہانہیں : فرمایا یہ میرے بندے یونس کی آوازہے۔ فرشتوں نے کہا وہی یونس جس کے پاک عمل قبول شدہ ہرروز تیری طرف چڑھتے تھے اور جس کی دعائیں تیرے پاس قبول تھیں ۔
الٰہی جیسے وہ آرام کےوقت نیکیاں کرتاتھا،تواس کی مصیبت  کےوقت اس پررحم کرے ،تواسی وقت اللہ تعالیٰ نے مچھلی کوحکم دیاکہ وہ آپ کوبغیر کسی تکلیف کےسمندر  کےکنارے پراگل دے ۔[10]
“روایت میں آتاہے کہ یونس علیہ السلام مچھلی کےپیٹ میں تین دن ، سات دن ،چالیس دن یاچندگھنٹے  تسبیح  کرتے رہے ،چنانچہ  مچھلی نے اللہ کےحکم سےسمندر کےکنارے  پراگل دیا۔
 “حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ فرماتےہیں  کہ مچھلی کےپیٹ میں رہنے کی جوہ سے ان کاجسم ایساہوگیاتھاجیساکہ پرندہ  کاپیداشدہ بچہ جس کاجسم نرم ہوتاہے  اورجسم پربال تک نہیں تھے غرض یونس ؑ بہت نحیف وناتواں حالت میں خشکی  پرڈال دئیے گئے تھے ۔ اسکے بعد اللہ تعالیٰ نے ساحل پرایک بیلداردرخت اگایا۔
یونس علیہ السلام کے لیے سایہ اور خوراک انتظام
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتےہیں  کہ
 جب مچھلی نےیونس علیہ السلام کوکھلے میدان میں ڈالا تواللہ تعالیٰ نے آپ پر “یقطین ” کی بیل اگادی ۔ان سے پوچھاگیاکہ یقطین کسے کہتےہیں ” فرمایا ( کدوکےپودےکو) اس کےعلاوہ اللہ نے ان کے لیے ایک جنگلی بکری بھیج دی۔جوزمین کی گھاس اورجڑی بوٹیاں کھاتی تھی۔اورصبح وشام آپ کودودھ پلاتی تھی ۔ حتیٰ کہ آپ کی توانائی لوٹ آئی ۔ حضرت یونس علیہ السلام درخت کےسائے میں جھونپڑی بناکررہنےلگے ۔چنددنوں بعدایساہواکہ اس بیل کی جڑمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کپڑالگ گیااوراس نے جڑکوکاٹ ڈالا۔ جب کوکاٹ  ڈالا۔جب بیل سوکھنےلگی تویونس ؑکوبہت دکھ ہوا،تب اللہ تعالیٰ نے وحی کےذریعے  ان کومخاطب کیااورفرمایا : یونس !تم اس بیل کےسوکھنےپرکتنارنج کااظہارکررہےہوجوایک حقیرسی چیزہے۔ مگرتم نےیہ نہ سوچاکہ نینویٰ کی ایک لاکھ سےزائد آبادی جس میں انسان بس رہےہیں اوران کےعلاوہ جانداربھی آبادہیں ۔اس کوبرباداورہلاک کردینےمیں کیاہم کوکوئی ناگواری نہیں ہوگی ۔اورکیاہم ان کےلیے اس سےزیادہ شفیق ومہربان نہیں ہیں جتنا کہ تجھ کواس بیل سےانس ہےجوتم وحی کاانتظارکیےبغیر قوم کوبددعاکرکےان کےدرمیان سےنکل آئے ۔ایک نبی کی شان کےنزدیک یہ نامناسب تھاکہ وہ قوم کےحق میں عذاب کی بددعا کرتے اوران سے نفرت کرکےجداہوجانےمیں عجلت  کرلےاوروحی کاانتظار بھی نہ کرے۔
“یونس علیہ السلام کےبستی چھوڑدینےکےبعدنینویٰ کےلوگوں کویقین ہوگیاتھاکہ وہ ضرور خداکےسچےپیغمبرہیں اوراب ہلاکت یقینی ہے۔ تب ہی یونس علیہ السلام  ہم سےجداہوگئے یہ سوچ کرفوراً بادشاہ سےلے کررعایاتک سب کےدل خوف ودہشت سے کانپ اٹھے اوریونس علیہ السلام کوتلاش کرنےلگے ۔تاکہ ان کےہاتھ پراسلام کی بیعت کریں ۔اورساتھ ہی خدائے تعالیٰ سےتوبہ واستغفار کرنےلگے ،اورہرقسم کےگناہوں سےکنارہ کش ہوکرآبادی سے باہرمیدان میں نکل آئے اوربارگاہ الٰہی میں بلندآوازسے یہ اقرارکرتے رہے ۔
ربناامنابماجاء یونس “
ترجمہ : اے ہمارے رب  ! یونس علیہ السلام جوتیراپیغام  ہمارے پاس لےکرآئیں ہیں ہم اس کی تصدیق کرتےہیں اورہم اس پرایمان لاتےہیں “
آخرکار اللہ پاک نے ان کی دعا قبول فرمائی اوران کوعذاب الٰہی سےمحفوظ رکھابہرحال یونس علیہ السلام کواللہ پاک نے صحت وتندرستی دےکراب دوبارہ نینویٰ جانےکاحکم دیا کہ قوم میں رہ کران کی رہنمائی فرمائی جائے  چنانچہ  حضرت یونس علیہ السلام نینویٰ واپس تشریف لےگئےقوم کےلوگوں نےجب انہیں دیکھاتوخوشی کااظہارکیا۔
حضرت یونس علیہ السلام کی زندگی نینویٰ ہی میں گزری اوروہیں ان کاانتقال ہوااوروہیں ان کی قبر تھی ۔جونینویٰ کی تباہی کےبعدنامعلوم ہوگئی ۔
اس قصے میں سبق یہ ہےکہ کسی بھی حال میں اللہ کی رحمت سےمایوس نہیں ہوناچاہیے اورنہ ہی ہدایت کےمعاملےمیں اپنی ذات پربھروسہ کرناچاہیے ہدایت توبس اللہ ہی کی طر ف سے ہے ۔آپ کےذمے توبس پیغام حق پہنچاناہے ۔
حضرت یونس علیہ السلام کامچھلی کے پیٹ میں زندہ رہنا
حضرت یونس ؑ کو اللہ تعالیٰ نے نینویٰ (موجودہ عراق کا شہر موصل )کی بستی کی ہدایت کے لیے بھیجا۔نینویٰ میں آپؑ کئی سال تک ان کو تبلیغ کی دعوت دیتے رہے ۔مگر قوم ایمان نہ لائی تو آپ ؑ نے ان کو عذاب کے آنے کی خبر دی اور ترشیش (موجودہ تیونس )کی طرف جانے کے لئے نکلے۔حضرت یونس ؑ جب قوم سے ناراض ہو کر چلے گئے تو قوم نے آپ ؑ کے پیچھے توبہ کرلی ۔ دوسری طرف آپ ؑ اپنے سفر کے دوران دریا کو عبورکرنے کے لیے اسرائیل کے علاقہ یافا میں کشتی میں سوار ہوئے ۔کچھ دور جاکر کشتی بھنور میں پھنس گئی ۔ اس وقت کے دستور اور رواج کے مطابق یہ خیال کیا جاتا تھا کہ جب کوئی غلام اپنے مالک سے بھاگ کر جارہا ہو اور کشتی میں سوار ہوتو وہ کشتی اس وقت تک کنارے پر نہیں پہنچتی جب تک اس غلام کو کشتی سے اتار نہ لیں ۔
اب کشتی کے بھنور میں پھنسنے پر ان لوگوں نے قرعہ ڈالا جو حضرت یونس ؑ کے نام نکلا۔تین دفعہ قرعہ آپ ؑ کے نام ہی نکلا تو آ پ ؑ نے فرمایا کہ میں ہی غلام ہوں جو اپنے آقا کو چھوڑ کا جار ہا ہوں۔ آپ ؑ نے خود ہی دریا میں چھلانگ لگادی تاکہ دوسرے لوگ کنارے پر پہنچ جائیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ایک مچھلی کے دل میں القا ء کیا اور حکم دیا کہ حضرت یونس ؑ کو بغیر نقصان پہنچائے ،نگل لے ۔ اس طرح آپؑ مچھلی کے پیٹ میں آگئے ۔یہ آپ ؑ پر ایک امتحان تھا۔
ذالنون اور صاحب الحوت کہنے کی وجہ
حضرت یونس ؑ کو مچھلی کے پیٹ میں جانے کی وجہ سے ” ذوالنون” اور ” صاحب الحوت” کہا گیا ہے کیونکہ نون اور حوت دونوں کا معنی مچھلی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
وَذَا النُّونِ إِذ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَن لَّن نَّقْدِرَ عَلَيْهِ ۔۔ [11]
اور مچھلی والے کو بھی ہم نے نوازا یاد کرو جبکہ وہ بگڑ کر چلا گیا تھا اور سمجھا تھا کہ ہم اس پر گرفت نہ کریں گے۔
دوسری طرف مچھلی کے پیٹ میں داخل ہونے کے بعد حضرت یونس ؑ نے یہ سمجھا کہ وہ مرچکے ہیں مگر پاؤں پھیلایا تو اپنے آپ کو زندہ پایا۔بارگاہ الہی میں اپنی ندامت کا اظہار کیا او ر توبہ استغفار کی ،کیونکہ وہ وحی الہی کا انتظار اور اللہ تعالیٰ سے اجازت لئے بغیر اپنی قوم سے ناراض ہوکر نینویٰ سے نکل آئے تھے ۔ پھر مچھلی کے پیٹ میں حضرت یونس ؑ نے اپنی خطا کی یوں معافی مانگی۔
فَنَادَىٰ فِي الظُّلُمَاتِ أَن لَّا إِلَ۔ٰهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ [12]
آخر کو اُس نے تاریکیوں میں پکارا “نہیں ہے کوئی خدا مگر تُو، پاک ہے تیری ذات، بے شک میں نے قصور کیا ۔
جب اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس ؑ کی پرسوز آواز کو سنا اور دعا قبول کی تو مچھلی کو حکم ہوا کہ حضرت یونس ؑ کو جو تیرے پاس ہماری امانت ہے ،اُگل دے۔چنانچہ مچھلی نے دریا کے کنارے حضرت یونس ؑ کو 40 روز بعد اُگل دیا۔وہ ایسی ویران جگہ تھی جہاں نہ کوئی درخت تھا نہ سبزہ ،بلکہ بالکل چٹیل میدان تھا ،جب کہ حضرت یونس ؑ بے حد کمزور و نحیف ہوچکے تھے۔
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت یونس ؑ نومولود بچے کی طرح ناتواں کمزور تھے ۔آپ ؑکا جسم بہت نرم ونازک ہوگیا تھا اورجسم پر کوئی بال نہ تھا۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے حضرت یونس ؑ کے قریب کدو کی بیل اُگا دی تاکہ اس کے پتے آپ ؑ پر سایہ کئے رہیں ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے حکم کےبموجب ایک جنگلی بکری صبح وشام آپ ؑ کو دودھ پلا کر واپس چلی جاتی ،یہ سب اللہ تعالیٰ کی رحمت اور فضل ہی تھا ورنہ آپ ؑ ضعیف اور کمزور تر ہوتے چلے جاتے۔[13]
 قرآن مجید مچھلی کے پیٹ سے نکلنے کے بعد حضرت یونس ؑ کی حالت کو اس طرح بیان کرتا ہے:
فَنَبَذْنَاهُ بِالْعَرَاءِ وَهُوَ سَقِيمٌ﴿145﴾ وَأَنبَتْنَا عَلَيْهِ شَجَرَةً مِّن يَقْطِينٍ ﴿146﴾[14]
آخرکار ہم نے اسے بڑی سقیم حالت میں ایک چٹیل زمین پر پھینک دیااور اُس پر ایک بیل دار درخت اگا دیا۔
آج کئی سو سال بعد جدید سائنس نے اتنی بڑی مچھلی کے موجود ہونے کی تصدیق کر دی ہے اور کئی تحقیقاتی ادروں نے اتنی بڑی مچھلیوں کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا۔ ذیل میں ہم وہیل یا عنبر مچھلی پر چند تحقیقاتی اداروں کی رپورٹ پیش کر رہے ہیں۔
وہیل مچھلی کے متعلقہ جدید معلومات
ذیل میں ہم اس آبی جانور کی قامت وجسامت ،اوصاف و خصائل اور مخصوص عادات میں سے چند ایک کا ذکر کرتے ہیں تاکہ اس معجزے کے وقوع کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ یہ سب اوصاف وخصائص کسی اور قسم کی وہیل یا مچھلی مثلاً شارک وغیرہ میں بیک وقت نہیں پائے جاتے ۔ اس لیے ان میں سے کسی ایک کا تعلق بھی اس معجزے سے نہیں ہوسکتا ۔
وہیل دراصل دیوپیکر عظیم الجثہ مچھلیوں کے ایک وسیع خاندان کا نام ہے ۔ جس میں بڑی وہیل ،بوتل کی ناک والی وہیل ،قاتل وہیل ،نیلی وہیل ،ڈولفن، پائلٹ وہیل اور ناروہیل شامل ہیں۔ وہیل عام مچھلیوں سے مختلف ہے ۔ ان کے برعکس یہ اپنے بچوں کو دودھ پلاتی ہے۔جی ہاں !یہ پستان رکھنے والا جانور ہے ۔ یہ انسانوں کی طرح پھیپھڑوں سے سانس لیتی ہے،سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کا خون گرم ہوتا ہے۔
وہیل کے منہ کے قریب دو نتھنے ہوتے ہیں جو تیرے وقت عموماًسطح سمندر سے اوپر ہوتے ہیں ۔چنانچہ اسے سانس لینے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی ۔ یہ خاصی دیر تک گہرے پانی میں رہ سکتی ہے۔انسان صرف ایک منٹ تک سانس روکے ہوئے پانی میں رہ سکتا ہے ۔ حتیٰ کہ تجربہ کار غوطہ خوروں کو بھی جو سمندر کی گہرائی سے سیپ اور موتی نکالتے ہیں ،ڈھائی منٹ کے بعد سطح پر آنا پڑتا ہے ۔ اس کے برعکس پور کوئیل وہیل ،جس کی پشت پر پَر ہوتے ہیں ،چالیس منٹ اور سپر م وہیل ایک گھنٹے سے زائد بغیر سانس لیے گہرے پانی میں رہ سکتی ہے ۔ ایک سپرم وہیل سطح سمندر سے 1134 میٹر نیچے گہرے پانی میں پائی گئی ۔ بالین وہیل کسی وجہ سے خو فزدہ ہ ہو تو چار پانچ سو میٹر گہرائی تک غوطہ لگا سکتی ہے ۔
وہیل کی جسامت چارتا سو فٹ اور وزن ایک سو پونڈ تا ڈیڑہ سو ٹن ہوتا ہے ۔ ایک مرتبہ 98 فٹ لمبی وہیل کو تولا گیا تو اس کا وزن ہاتھی کے وزن کے برابر نکلا۔ اس کی دم ہوائی جہاز کی طرح ہوتی ہے جس کا ایک سرا اوپر کی سمت اُٹھا ہوتا ہے۔ اس کی جلد شفاف اور چکنی اور منہ کے قریب مونچھوں کی طرح لمبے لمبےبال ہوتے ہیں۔وہیل کے دانت یکساں اور ایک ہی قطار میں ہوتے ہیں ۔اکثر اسے شکار کو پکڑنے کی بھی ضرورت پیش نہیں آتی ۔ اس کے لئے تیرے وقت بس اپنا بڑھا سا منہ کھلا رکھنا ہی کافی ہوتا ہے کیونکہ بے شمار مچھلیاں اور دوسرے آبی جانور اپنے آپ اس کاچارہ بننے کے لیے چلے آتے ہیں ۔ اگر دنیا میں وزنی اور بڑی زبان کا مقابلہ کیا جائے تو نیلی وہیل سرفہرست رہے گی کیونکہ اس کی زبان کا وزن 6 پونڈ کے لگ بھگ ہوتا ہے اور اس میں بے پناہ قوت ہوتی ہے ۔وہیل گینڈےکی طرح بلا کی پیٹو ہوتی ہے اور مسلسل کچھ نہ کچھ کھاتی رہتی ہے ۔
وہیل کا منہ ہی اتنا بڑا ہوتا ہے کہ اس میں بیس ،پچیس آدمی ایک ساتھ بڑی آسانی سے کھڑے ہو سکتے ہیں ۔ مال گاڑی کا ایک ڈبہ وہیل کے منہ میں باآسانی رکھا جا سکتا ہے ۔ کلکتہ کے عجائب گھر میں وہیل کے گال کے دو کھوپڑے ہیں جو 25-30 ہا تھ لمبے ہیں ۔ وہیل کا جسم جتنا لمبا ہوتا ہے اس کا ایک تہائی منہ ہوتا ہے ۔
جسامت کے لحاظ سے وہیل کی ایک قسم جسے نیلی وہیل یا “بلو وہیل ” کہتے ہیں سب وہیلوں سے بڑی ہوتی ہے اس کی لمبائی 100-125 فٹ تک ہوتی ہے اور وزن 150 ٹن تک ہوتا ہے ۔ عنبر کی اوسط لمبائی 70- 60 فٹ تک ہوتی ہے اور اس کا وزن 90 ٹن تک دیکھنے میں آیا ہے ۔ نیلی وہیل کے مقابلے میں عنبر کی لمبائی اور وزن کم ہوتے ہیں ۔ ڈاکٹر بیل اور ڈاکٹر بینٹ نے ایک عنبر کی لمبائی 84 فٹ لکھی ہے ۔ ڈاکٹر بیل کے مطابق 36فٹ اور زمین پر لٹانے کے بعد اس کی زیادہ سے زیادہ اونچائی 12 سے 14 فٹ ہوتی ہے ۔ عنبر وہیل کے مشہور شکاری بلن نے اپنی مشہور کتاب (Cruise of the Cacgalot)میں لکھا ہے کہ ایک عبنر کی لمبائی جو اس کے مشاہدے میں آئی 70 فٹ تھی ۔ یہ امر ملحوظ خاطر رہے کہ پیدائش کے وقت عنبر کے بچے کی لمبائی تقریباً 13،14 فٹ اور وزن ایک ٹن سے کچھ زائد ہوتا ہے ۔ دو سال میں اس کی لمبائی 24 فٹ اور وزن 4 ٹن تک ہو جاتا ہے ۔
اس کاحلق بہت فراخ اور وسیع ہوتا ہے ،جس سے یہ ایک لحیم و شحیم انسان کو با آسانی نگل سکتی ہے اور بعد میں خاص حالات میں اسے اگل کر باہر پھینک سکتی ہے ۔ اس کے خلق کے نیچے کئی جھریاں (Folds)بھی ہوتی ہیں اور جب اسے معمول سے زیادہ بڑی چیز نگلنا پڑ جائے تو ا س کا حلق جھریوں کے کھل جانے سے وسیع تر ہوسکتا ہے ۔ اور وہ ایک عام انسان کی جسامت سے بڑی اشیاء کو بھی باآسانی نگل سکتی ہے ۔
قرآن کریم  میں مچھلی کا واقعہ
قرآن کی تین سورتوں میں حضرت یونس ؑ کو مچھلی کے نگل لینے کا واقعہ آیا ہے ۔ بعض ماڈرن حضرات اس واقعہ کی اصلیت کو شک کی نظر دیکھتے ہیں کہ آخر اتنے دن تک آپ ؑ بغیر کھائے پئے چاروں طرف سے بند ایک اند ھیر ی کوٹھری میں زندہ کیسے رہے ؟بات یہ ہے کہ معجزات ہمیشہ محیر العقول ہوتے ہیں ،جن کو دیکھنے اور سننے والے حیران وششدر رہ جاتے ہیں ،ان کو معجزہ کہا ہی اسی لیے جاتا ہے۔ لیکن بحرحال یہ ایک حقیقت ہے اور زیر نظر واقعات ہم اسی حقیقت کے تناظر میں پیش کررہے ہی ۔ ملاحظہ فرمائیں۔
دور نبوی میں دیوقامت مچھلی کا وجود
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ فرماتے ہیں :
حضور نبی کریم نے ہم تین سو سواروں کو حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ؓ کی قیادت میں کسی مہم پر روانہ فرمایا۔ہم ساحلی علاقے کی سمت نکل گئے اور ہمارا راشن ختم ہوگیا ۔غذائی کمی اتنی ہوگئی کہ ہم نے کانٹے دار جھاڑیاں بھی کھائیں ۔کیا دیکھتے ہیں کہ سمندر نے ایک بہت بڑی مچھلی ساحل پر پھینک دی ہے ۔ہم نے اس مچھلی کو آدھ مہینہ کھایا ۔پھر ابو عبیدہ ؓ نے ایک دن اس مچھلی کی پسلی لی اور اس کو کھڑا کیا ، ایک اونٹ پر سوار آدمی آرام سے اس پسلی کے نیچے سے گذر گیا ۔مدینہ واپس آکر ہم نے اس مچھلی کا کچھ گوشت نبی کریم کی خدمت میں روانہ کیا اور انہوں نے اسے قبول فرمایا۔
اس مچھلی کو عنبر کا نام دیا گیا ۔اب کی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ دواؤں میں استعمال ہونے والا عنبر یا عبنر اشہب اسی مچھلی کا فضلہ ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سے عنبر کا سراغ نبی نے عطا فرمایا ۔ تین سو فاقہ زدہ سواروں نے اس مچھلی کو صبح وشام 15 دن تک کھایا ۔جب مدینہ آئے تو ان کے تھیلوں میں ابھی بھی اس کا گوشت کا موجود تھا ۔ نبی کریم نے بھی اس میں سے نوش فرمایا کیونکہ سمندر کا شکار حلا ل ہے ۔ بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مچھلی وہیل تھی۔



[1] ۔ دریا دجلہ کے مشرقی کنارے جہاں آج موصل نامی شہر آباد ہے،وہاں ایک قدیم شہرآباد تھا۔
[2] ۔ البخاری، صحیح البخاری، رقم الحدیث:3415
[3]۔ البخاری، صحیح البخاری، رقم الحدیث:3413؛نیشاپوری، صحیح مسلم، رقم الحدیث: 2377،السجستانی ،ابو داؤد،رقم الحدیث:4669
[4] ۔ البخاری، صحیح البخاری، رقم الحدیث:4604
[5] ۔تاریخ دمشق،69،ص246،247،داراحیاء التراث العربی، بیروت 1421ھ
[6] ۔تاریخ دمشق،69،ص248،249،داراحیاء التراث العربی، بیروت 1421ھ
[7] ۔ (تفسیر قرطبی:333/11:) 
[8] ۔الصافات37: 139-144
[9] ۔الانبیاء 21: 87،88
[10] ۔ الدر المنشور للسیوطی:599/4 ؛ تفسیر ابن جریر الطبری:24778
[11] ۔﴿ الانبیاء ۔87﴾
[12] ۔﴿ الانبیاء ۔87﴾
[13] ۔(بحوالہ تفسیر روح المعانی ،ابن کثیر)
[14] ۔ (الصافات،145،146

Post a Comment

0 Comments