Ticker

6/recent/ticker-posts

Advertisement

قرآن مجید کا اسلوب واقعات نگاری


قرآن مجید کا اسلوب واقعات نگاری


قرآن ہی وہ واحد کتاب ہے جس نے نہایت اختصار لیکن پوری تشریح کے ساتھ اپنے پیروؤں کو بتایا کہ پیغام الٰہی کو کس طرح لوگوں تک پہنچایا جائے اور ان کو قبول حق کی دعوت کس طرح دی جائے۔
اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُمْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ… [1]
’’اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے پر جو بہترین ہو‘‘۔
حکمت اور موعظہ حسنہ جیسے دعوت کے دو کلیدی اسلوب بتانے کے ساتھ ساتھ انبیائے کرام کی دعوت کے نمونے پیش کر کے اس کے خطوط و حدود بھی واضح کر دیے گئے جن کی موجودگی میں دعوتِ دین کا کام کرنے والوں کو کسی تحریک یا ازم سے طریق کار مستعار لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم ذیل میں مختصر طور پر اسالیب دعوت پیش کر رہے ہیں۔
تدریج
انسان کی قوت فہم اور قوت اخذ میں نقص ہے، جس کے سبب سے وہ بیک وقت ساری باتیں نہیں سمجھ سکتا۔ اس لیے قرآن اپنی دعوت پیش کرنے میں تدریجی طریقہ اختیار کرتا ہے تاکہ جو لوگ اس کو قبول کریں اپنی طبیعت کی طلب سے قبول کریں اور پورا دین ان کے فکر و نظر اور روح و دل کے اندر جذب ہو جائے۔ اس لیے قرآن سب سے پہلے عقیدہ کو پیش کرتا ہے جو انسانی روح کی اہم ترین ضرورت ہے۔ یہی صورت انسانوں کے مجتمع اور متحد ہونے کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ شکل ہے جو انسانی وجود کے شایان شان ہے۔ دعوت کا یہی طریقہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بتایا ہے
عن ابن عباسؓ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لمعاذ بن جہلؓ حین بعثہ الی الیمن انک ستاتی قوما من اھل الکتاب فاذا جنتم فادعھم الی ان یشھدوا ان لا الہٰ الا اللہ وان محمداً رسول اللہ فانھم اطاعوا لک بذالک فاخبر ھم ان اللہ قد فرض علیکم خمس صلوات فی کل یوم ولیلتہ فانھم اطاعوا لک بذلک فاخبر ھم ان اللہ قد فرض علیکم صدقتہ توخذ من اغنیائھم فترد علی فقرائھم اطاعوا لک بذالک فایاک وکرائم اموالھم واتق دعوۃ المظلوم فانہ لیس بینھم بین اللہ حجاب۔[2]
’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کی جانب روانہ کرتے وقت ان سے فرمایا کہ تم ایک ایسی قوم کے پاس جا رہے ہو جو اہل کتاب ہیں اس لیے وہاں جانے کے بعد سب سے پہلے انہیں لاالٰہ الا اللہ اور محمد رسول اللہ کی دعوت دینا جب وہ تمہاری اس بات کو مان لیں تو انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے اوپر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں جب وہ اس کے بھی پابند ہو جائیں تو انہیں فرضیت زکوٰۃ کی دعوت دینا کہ اللہ نے تمہارے اوپر زکوٰۃ فرض کی ہے جو تمہارے مالداروں سے لی جائے گی اور تمہارے ہی غریبوں پر لوٹائی جائے گی۔ جب وہ تمہاری اس بات کو بھی قبول کر لیں تو ان کے عمدہ مال لینے سے بچنا کیونکہ مظلوموں کی آہ اللہ تک بغیر کسی رکاوٹ کے پہنچ جاتی ہے‘‘۔
جب مسلمانوں کے اندر عقیدہ مستحکم ہو جاتا ہے اور پھر وہ وقت بھی آ جاتا ہے کہ مسلمان اتنی سیاسی قوت بہم پہنچا لیں کہ خدا کی زمین پر خدا کے احکام جاری و نافذ کر سکیں۔ تب جاکر ان کو وہ احکام و قوانین دیے جاتے ہیں جن کا تعلق بین الاقوامی سیاست سے ہے۔
تمثیل اور تصویر کشی
قرآنِ کریم جا بجا اپنے مخاطبین کو اپنی بات سمجھانے اور دل کی گہرائیوں تک اتارنے کے لیے تمثیل اور تصویر کشی کا پیرایہ اختیار کرتا ہے۔ کیونکہ یہ ادب کی دلنواز قسم ہے جو بات کو سمجھانے کے لیے تیر بہدف کا اثر رکھتی ہے اس کے ذریعہ باتیں بہت جلد اور آسانی سے سمجھ میں آ جاتی ہیں۔
وَلَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِیْ ہٰذَا الْقُرْاٰنِ مِنْ کُلِّ مَثَلٍ لَّعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُوْن  [3]
’’ہم نے اس قرآن میں لوگوں کو طرح طرح کی مثالیں دی ہیں تاکہ یہ ہوش میں آئیں‘‘۔
وَ تِلْکَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُہَا لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ [4]
’’یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے اس لیے بیان کرتے ہیں کہ وہ غور و فکر سے کام لیں‘‘۔
قصص و واقعات
یہ بات شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ حقائق کو پیش کرنے اور انہیں مؤثر صورت میں دلوں میں اتارنے کے لیے قصوں کو بیان کرنے کا قرآن کا ایک خاص اسلوب ہے اور یہ حقیقت کسی بھی زبان کے فصیح و بلیغ ادیب سے چھپی ہوئی نہیں ہے کہ واقعات کا استعمال پند و نصیحت کے لیے کس درجہ مفید اور دلنشین ہے۔ قرآن انبیائے کرام کے قصص و واقعات کے ضمن میں ان کے دعوتی نمونے کو بھی پیش کرتا ہے۔ کیونکہ عملی نمونوں سے جو سبق ملتے ہیں وہ کسی دوسرے وسائل سے بہتر ہوتے ہیں۔
تصریف آیات
کوئی بات جب ایک پہلو سے سمجھ میں نہیں آتی تو دوسرا اور تیسرا پہلو اختیار کرنا پڑتا ہے اور عموماً یہ صورت کارگر ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن ایک مدعا کو مختلف اسالیب اور پہلوؤں سے سمجھانے کی کوشش کرتا ہے۔
کَذٰلِکَ نُصَرِّفُ الاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَشْکُرُوْن  [5]
’’اسی طرح ہم نشانیوں کو بار بار پیش کرتے ہیں ان لوگوں کے لیے جو شکر گزار ہونے والے ہیں‘‘۔
پھر ایک ہی قسم کی باتوں کا اعادہ ایک ہی عبارت اور ایک ہی ڈھنگ پر نہیں کرتا بلکہ ہر بار نئے الفاظ اور نئے اسلوب میں پیش کرتا ہے تاکہ نہایت خوشگوار طریقے سے دلوں میں اتر جائیں۔
نفسیات انسانی کا لحاظ
نفسیاتی نقطۂ نظر سے سب سے اہم چیز جس کا قرآن خاص لحاظ رکھتا ہے وہ یہ ہے کہ اپنے مخاطب کے اندر حمیت جاہلیت نہ ابھرنے پائے۔ ہر قوم اپنے معتقدات و روایات کے ساتھ وابستگی رکھتی ہے۔ اگر یہ وابستگی باطل ہے تو قرآن اس کی اصلاح کا طریقہ یہ بتاتا ہے کہ پہلے ان غلط فہمیوں کو دور کیا جائے جن کی وجہ سے یہ غلط وابستگی قائم ہے۔ ایسا ہر گز نہ کیا جائے کہ اس کی غلط وابستگی کے فکری اسباب کی اصلاح کے بجائے خود اس پر براہِ راست حملہ کر دیا جائے کیونکہ اس طرح کے براہ راست حملے کا نتیجہ یہ ہو گا کہ مخاطب حمیت جاہلیت سے بے خود ہو کر دعوت کی مخالفت کے لیے اٹھ کھڑا ہو گا۔ اسی نکتہ کی طرف ان آیتوں میں اشارہ کیا گیا ہے:
(الف) وَ لَا تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اﷲِ فَیَسُبُّوا اﷲَ عَدوًا بِغَیْرِ عِلْمٍط کَذٰلِکَ زَیَّنَّا لِکُلِّ اُمَّۃٍ عَمَلَہُمْص [6]
’’انہیں گالیاں مت دو جو کہ اللہ کے سوا کسی اور کو پکارتے ہیں کیونکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ شرک سے آگے بڑھ کر جہالت کی بناء پر اللہ کو گالیاں دینے لگیں۔ ہم نے اسی طرح ہر گروہ کے لیے اس کے عمل کو خوشنما بنا دیا ہے‘‘۔
(ب) وَقُلْ لِّعِبَادِیْ یَقُوْلُوْا الَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ اِنَّ الشَّیْطٰنَ یَنزَغُ بَیْنَہُمْ اِنَّ الشَّیْطٰنَ کَانَ لِلاِنْسَانِ عَدُوًّا مُّبِیْنًا [7]
’’اور اے نبیؐ! میرے بندوں سے کہہ دیجیے وہ زبان سے وہ بات نکالا کریں جو بہترین ہو۔ دراصل وہ شیطان ہے جو انسان کے درمیان فساد ڈلوانے کی کوشش کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے‘‘۔
قرآن ان اوقات میں بھی دعوت دینے سے احتراز کرتا ہے جب کہ مخاطب اعتراض اور نکتہ چینی پر مستعد ہوتا ہے اور کسی ایسے مناسب موقع کا انتظار کرتا ہے جب کہ مخاطب خالی الذہن یا کم از کم اعتراض و نکتہ چینی کے جذبے سے عاری ہو۔
ت) وَ اِذَا رَاَیْتَ الَّذِیْنَ یَخُوْضُوْنَ فِیْ اٰیٰتِنَا فَاَعْرِضْ عَنْہُمْ حَتّٰی یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِہٖط وَاِمَّا یُنْسِیَنَّکَ الشَّیْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّکْرٰی مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْن [8]
’’اور اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب تم دیکھو کہ لوگ ہماری آیات پر نکتہ چینیاں کر رہے ہیں تو ان کے پاس سے ہٹ جاؤ۔ یہاں تک کہ وہ اس گفتگو کو چھوڑ کر دوسری باتوں میں لگ جائیں اور اگر کبھی شیطان تمہیں بھلاوے میں ڈال دے تو جس وقت تمہیں اس غلطی کا احساس ہو جائے اس کے بعد پھر ایسے ظالم لوگوں کے پاس نہ بیٹھو‘‘۔
خلاف وقار طریقوں سے احتراز:
قرآن ان تمام طریقوں سے بھی احتراز کرتا ہے جن سے دعوت کی شان کو ٹھیس پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ بھاگنے والوں کے پیچھے پڑنا، نفرت کرنے والوں کا پیچھا کرنا یا گھمنڈ کرنے والوں کے سامنے تواضع کرنا اسی حد تک جائز قرار دیتا ہے کہ دعوت کی عظمت کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ سورہ عبس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو قریش کے لیڈروں کے ساتھ اسی طرح کی نیاز مندیوں سے روکا گیا ہے اور داعیانِ حق کو تعلیم دی گئی ہے کہ جو لوگ دعوت سے متنفر اور بے نیاز ہوں ان کو پکارنے اور اپنانے کی خواہش اتنی غالب نہ ہونی چاہیے کہ اس انہماک میں ان لوگوں کی حق تلفی ہونے لگے جو دعوت قبول کر کے تربیت کے لیے منتظر اور محتاج ہوں۔
بدی کا مقابلہ بہترین نیکی سے
قرآن کا ایک نمایاں اسلوب دعوت یہ ہے کہ وہ بدی کا مقابلہ بہترین نیکی سے کرتا ہے:
وَ لَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَ لَا السَّیِّئَۃُ ادْفَعْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہُ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہُ وَلِیٌّ حَمِیْم  [9]
’’اور اے نبیؐ! نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو۔ تم دیکھو گے کہ تمہارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی، وہ جگری دوست بن گیا ہے‘‘۔
اس آیت کی تفسیر میں مولانا مودویؒ رقم طراز ہیں۔
 ’’اس آیت میں دو باتیں بتائی گئی ہیں پہلی بات یہ کہ نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔ یعنی بظاہر مخالفین بدی کا کیسا ہی خوفناک طوفان اٹھا لائیں لیکن بدی بجائے خود اپنے اندر کمزوری رکھتی ہے جو آخر کار اس کا بھٹہ بٹھا دیتی ہے۔ کیونکہ انسان جب تک انسان ہے اس کی فطرت بدی سے نفرت کیے بغیر نہیں رہ سکتی۔ اس بدی کے مقابلے میں اگر وہی نیکی جو بالکل عاجز و بے بس نظر آتی ہے مسلسل کام کرتی چلی جائے تو آخر کار وہ غالب آکر رہتی ہے۔ کیونکہ اول تو نیکی بجائے خود ایک طاقت ہے جو دلوں کو مسخّر کرتی ہے اور آدمی خواہ کتنا ہی بگڑا ہوا ہو اپنے دل میں اس کی قدر محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ پھر جب نیکی اور بدی سامنے مصروف پیکار ہوں اور کھل کر دونوں کے جوہر پوری طرح نمایاں ہو جائیں ایسی حالت میں تو ایک مدت کی کشمکش کے بعد کم ہی لوگ ایسے باقی رہ سکتے ہیں جو بدی سے متنفر اور نیکی کے گرویدہ نہ ہو جائیں۔ دوسری بات یہ فرمائی گئی کہ بدی کا مقابلہ محض نیکی سے نہیں بلکہ اس نیکی سے کرو جو بہت اعلیٰ درجے کی ہو۔ یعنی کوئی شخص تمہارے ساتھ کوئی برائی کرے اور تم اس کو معاف کردو تو یہ محض نیکی ہے۔ اعلیٰ درجے کی نیکی یہ ہے کہ جو تم سے بُرا سلوک کرے تم موقع آنے پر اس کے ساتھ احسان کرو۔ اس کا نتیجہ یہ بتایا گیا ہے کہ بدترین دشمن بھی آخر کار جگری دوست بن جائے گا اس لیے کہ یہی انسانی فطرت ہے‘‘۔[10]


[1] ۔(النحل: ۱۲۵)
[2] ۔ (صحیح البخاری جلد، ۲ ص، ۶۲۳)
[3] ۔(الزمر: ۲۷)
[4] ۔ (الحشر: ۲۱)
[5] ۔(الاعراف: ۵۸)
[6] ۔ (الانعام: ۱۰۸)
[7] ۔(بنی اسرائیل: ۵۳)
[8] ۔(الانعام: ۶۸)
[9] ۔(حم السجدہ: ۳۴)
[10] ۔(تفہیم القرآن: جلد،۴)

Post a Comment

0 Comments