Ticker

6/recent/ticker-posts

Advertisement

المبسوط (کتاب الاصل)میں امام محمد کے بیان کردہ اصول اجتہاد


المبسوط (کتاب الاصل)میں امام محمد کے بیان کردہ اصول اجتہاد

عہد اسلامی میں قرآن و حدیث کے ذریعے کئی اصول و قوانین  کو بیان کیا گیا ہے۔اور فقہ اسلامی کی تدوین  میں ان اصولوں کو بڑی اہمیت حاصل رہی ہے۔اصول اجتہاد  یقینا ایسا فن ہے جو نہ صرف علوم کا حصہ رہا بلکہ تاریخ میں اسی کی ضرورت کے پیش نظر اس کو اہم قرار دیا گیا ۔بلکہ یہ کہنا بجا ہو گا کہ اصول اجتہاد  کی اہمیت دیگر تمام علوم و امور سے زیادہ ہے۔ اس لیے قرآن و احادیث میں ذکر کردہ اصول زیادہ مضبوط اور درست ہیں یہی وجہ ہے کہ علماء نےاصول  کے قیام  کے لیے قرآن و سنت نبوی ﷺ کی طرف زیادہ رجحان کیا ہے۔

قرآن کریم بطور اصول

امام محمد بن حسن شیبانی نے المبسوط میں اہم قرآنی  اصول ذکر کیے ہیں، مثلاً
قلت أَرَأَيْت الْمُسَافِر تكون مَعَه امْرَأَته أَو جَارِيَته فَأَرَادَ أَن يَطَأهَا وَهُوَ يعلم أَنه لَا يجد المَاء أَتَرَى لَهُ أَن يَطَأهَا قَالَ نعم أَلا ترى قَوْله تَعَالَى {أَو لامستم النِّسَاء فَلم تَجدوا مَاء فَتَيَمَّمُوا صَعِيدا طيبا[1]}[2]
میں(ابو سلیمان جوزجانی) نے پوچھا: آپ کا اس مسافر کی بابت کیا خیال ہے جس کے ساتھ اس کی بیوی یا کنیز ہو،اور وہ اس سے وطی کرنا چاہتا ہے، جبکہ اسے معلوم ہے کہ اس کے پاس پانی نہیں ہے، تو کیا اس صورت میں وہ اس سے وطی کر سکتا ہے؟ تو آپ(امام محمد بن حسن شیبانی) نے فرمایا: ہاں! کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں دیکھا: ’’ اگر تم پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی سے تیمم کر لو‘‘۔
مقامِ دیگر پر ارشاد فرمایا:
وَإِذا حلف الرجل ليفعلن كَذَا وَكَذَا فِيمَا يسْتَقْبل وَلم يُوَقت لذَلِك وقتا فَهُوَ على يَمِينه لَا تقع عَلَيْهِ الْكَفَّارَة حَتَّى يهْلك ذَلِك الشَّيْء الَّذِي حلف عَلَيْهِ فَإِذا هلك ذَلِك حنث وَوَجَبَت عَلَيْهِ الْكَفَّارَة۔[3]
اور جب کسی آدمی نے قسم اٹھائی کہ وہ مستقبل ضرور بالضرور ایسا ایسا کرے گا، اور کوئی وقت مقرر نہ کیا، اوراس پر کوئی کفارہ نہ ہوگا،اور اپنی قسم پر ہی ہو گا جب تک وہ اس چیز کو ہلاک نہ کردے جس پر اس نے قسم اٹھائی، اور جب اس نے وہ چیز ہلاک کر دی تو اس کی قسم ٹوٹ گئی، اور اب اس پر کفارہ واجب ہے۔
امام محمد بن حسن اس پر اصول بیان کرتے ہیں:
لَا يُؤَاخِذكُم الله بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانكُم وَلَكِن يُؤَاخِذكُم[4]
اللہ تعالی یمین لغو میں تمہارا مؤاخذہ نہیں فرماتا، لیکن مؤاخذہ فرماتاہے( جس کو تم کر گزرو)

حدیث بطور اصول :

امام محمد بن حسن شیبانی نے المبسوط میں ا حادیث ِ رسول ﷺ  میں بیان کردہ اصول بھی ذکر کیے ہیں، مثلاً
قلت أَرَأَيْت الْأُذُنَيْنِ يغسل مقدمهما مَعَ الْوَجْه وَيمْسَح مؤخرهما مَعَ الرَّأْس أَو يمسحهما قَالَ أَي ذَلِك فعل فَحسن وَأحب إِلَيّ أَن يمسحهما مَعَ الرَّأْس لِأَن الْأُذُنَيْنِ عندنَا من الرَّأْس مَا أقبل مِنْهُمَا وَمَا أدبر بلغنَا عَن رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم أَنه قَالَ الأذنان من الرَّأْس۔[5]
میں (ابوسلیمان جوزجانی) نے کہا     آپ  کی کیا رائے ہے کہ کانوں کو چہرے کے ساتھ سامنے سے دھویا جائے اور ان کے پچھلے حصہ کا  مسح کیا جائے سر کے مسح کے ساتھ  یا  دونوں کانوں کامحض  مسح کرے گا؟ آپ نے فرما یا جس طرح بھی کرلے  اچھا  ہے اور میرے نزدیک اچھا یہ ہے کہ ان دونوں کا مسح سر کے مسح کے ساتھ  کرے  اس لیے کہ اس کا اگلا اور پچھلا حصہ سر کے حکم میں ہیں ۔ہمیں رسول اللہ ﷺ سے یہ روایت پہنچی ہے کہ دونوں کان سر کاحصہ ہیں ۔

استحسان بطور اصول:

قرآن و حدیث کی طرح امام محمد بن حسن شیبانی نے المبسوط میں  دیگر اصول بھی بیان کیے ہیں، جن میں سے استحسان بطور اصول   کی مثال پیش کی جاتی ہے:
قلت أَرَأَيْت إِن مسح رَأسه وَلم يمسح أُذُنَيْهِ قَالَ يجْزِيه قلت فَإِن مسح أُذُنَيْهِ وَلم يمسح رَأسه قَالَ لَا يجْزِيه ذَلِك قلت فقد تركت قَوْلك قَالَ آخذ فِي الْأُذُنَيْنِ بالاستحسان وآخذ فِي الرَّأْس بالثقة[6]

میں (ابوسلیمان جوزجانی) نے کہا     آپ کی کیا رائے ہے کہ اگر کوئی شخص  سر کا مسح کرے اور کانوں کا مسح نہ کرے (تو کیا یہ کفایت کرے گا ؟) آپ نے فرمایا یہ جائز ہے ۔میں نے کہا اگر اس نے کانوں کا مسح کر لیا اور سر کا مسح نہ کیا تو کیا حکم ہے تو   آپ نے فرمایا یہ جائز نہیں ہے ۔ میں (ابوسلیمان جوزجانی) نے کہاکہ آپ نے اپنا قول چھوڑ دیا  تو آپ نے فرمایا کہ کانوں کا مسح بطور استحسان ہے اور سر کا مسح ثقہ (نص قرآنی ) سے ثابت ہے ۔
یہ اصول وضوابط صرف قرآن و حدیث میں ہی نہیں بلکہ اجماع ،قیاس ،عرف عام ،وغیرہ میں بھی پائے جاتے  اور تاریخ اقوام عالم کا بھی حصہ ہے۔تاکہ معاشرے کو پرامن اور بقائے باہمی کے ذریعے قائم رکھا جاسکے ۔


[1] ۔النساء4 :6
[2] ۔ الشیبانی ، محمدبن حسن ،ابو عبد اللہ،امام، (م: 189ھ):الاصل المعروف بالمبسوط،کراچی ،ادارة القرآن والعلوم الاسلامیہ،س۔ن ،ج1،ص113
[3] ۔ الشیبانی ، کتاب  الاصل، ج1،ص114
[4] ۔ الشیبانی ، کتاب  الاصل، ج3،ص173
[5]۔ ایضاً،ج1، ص44
[6] ۔ الشیبانی :الاصل المعروف بالمبسوط،ج1، ص45

Post a Comment

0 Comments