Ticker

6/recent/ticker-posts

Advertisement

امام محمد بطور جسٹس


امام محمد بطور جسٹس

امام ابو یوسف فقہ حنفی کی ترویج و اشاعت کے خواہاں تھے ۔اور یہ خواہش بھی رکھتے تھے کہ ملک کا آئین فقہ حنفی کے مطابق ہو۔ اس لئے آپ نے ہارون الرشید کی درخواست پر چیف جسٹس کا عہدہ قبول کر لیا۔کچھ عرصہ بعد امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے علمی مقام  ومرتبہ کی بناء پر آپ کو ملک شام کے علاقہ رقہ میں جسٹس کے عہدے پر فائز کردیا ۔ جیسے ہی امام محمد کو اس بات کا علم ہوا تو آپ امام ابو یوسف کے پاس گئے اور عذر پیش کیا اور ساتھ درخواست بھی کی کہ مجھے اس آزمائش سے بچائیے ۔امام ابویوسف نے مسلک حنفی کی ترویج و اشاعت کی خاطر ان سے متفق نہ ہوئے اور انہیں ساتھ لیا اور یحیی برمکی کے پاس لے گئے۔اس طرح آپ کو مجبورایہ عہدہ قبول کرنا پڑا۔[1]

گواہوں کے بیان میں اختلاف کی بناء پر قصاص کی بجائے دیت لازم ہوگی ۔

امام محمد فرماتے ہیں: اگر ایک شخص دوسرے کے قتل خطاء پر گواہی دے اور دوسراقاتل کے اقرار پر گواہی دے تو ان دونوں کی گواہی باطل ہوگی کیونکہ ایک قاتل کے قول کی اور دوسرا عمل کی گواہی دے رہا ہے ۔اسی طرح اگر دو بندے کسی کے قتل کی گواہی دیں اور قتل کے دن جگہ یا شہر یا آلہ قتل یا قتل کی قسم (قتل عمد یا قتل خطاء ) میں اختلاف بیان کریں تو ان تمام کی گواہی باطل تصور کی جائے گی ۔اسی طرح اگر دونوں کہہ دیں کہ ہم قتل کے بارے میں  نہیں جانتے تو قیاس کی رو سے اس کا حکم بھی پہلے  والے احوال کی طرح ہوگا ،لیکن میں اس میں استحسان کو اختیار کرتے ہوئے اموال میں اس کی دیت کو جائز قرار دیتا ہو ں۔[2]

 



[1] ۔  الذہبی،مناقب الامام ابی حنیفۃ وصاحبیہ ،ج1 ،ص86
[2] ۔الشیبانی،کتاب الاصل ،باب الشہادات فی الدیات ،ج4،ص471،472

Post a Comment

0 Comments