Ticker

6/recent/ticker-posts

Advertisement

سیرت طیبہ (436) حل شدہ اسائنمنٹس بہار 2021


کو رس : سیرت طیبہ (436)

                                    امتحا نی مشق نمبر 1

                                    (یونٹ 1تا 4)

سوال نمبر 1: سیرت طیبہ کے لغو ی اور صطلاحی مفہوم کو وضا حت کے سا تھ تحر یر کر یں ۔

جواب : سیرت کے لغوی :

لفظ --- سیرۃ (عربی میں یہ لفظ اسی طرح لکھا جا تا ہے مگر اردو ، فارسی میں اسے لمبی "ت" کے ساتھ لکھنے کا عا م رواج ہو گیا ہے۔ اس لیے اس یونٹ—بلکہ--- کتا ب میں بھی یہی املا (سیرت) احتیا ر کی گئی ہے ) یہ لفظ—عربی زبان کے جس مادے یا فعل سے بنا ہے ،اس کے لفظی معنی ہیں چل پھرنا۔راستہ لینا ،رویہ یا طریقہ  احتیا ر کرنا ،روانہ ہونا ،عمل پیرا ہونا وغیر ہ ۔اس طرح "سیرت" کے معنی حالت ،رویہ طریقہ ،چال ،کردار ،خصلت اور عادت  کے ہیں ۔صورت کے ساتھ مل کر یہ لفظ باطن کی صورت یا حقیقت کے لئے استعمال   ہوتا ہے ۔

مثلا  صورت وسیرت کہنا ۔کسی کا شعر ہے:

                سیرت کے ہم غلام ہیں ،صورت ہوئی تو کیا                 سرخ وسفید مٹی کی مورت ہوئی تو      کیا

                اس سے ہم اردو میں تعمیر سیرت ،سیرت سازی پختگی سیرت ،نیک سیرت ،بد سیرت  اور حسن سیرت وغیرہ  الفاظ استعمال کرتے ہیں۔

                قرآن مجید میں یہ لفظ(سیرۃ) صرف ایک جگہ آیا ہے یعنی(  ترجمہ:  کہ" ہم اسے اسکی  پہلی حالت پر لوٹا دیں  گے") ۔اس آیت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عصا (لاٹھی) کا سانپ بن جانے کے بعد دوبا رہ اصلی حالت میں آجانے کی طرف اشارہ ہے  ۔ اس میں جیسا کہ آپ نے دیکھا ۔ لفظ "سیرت "  حالت اور کیفیت کے معنوں   میں استعمال ہو اہے۔

                لفظ "سیرت"  واحد کے طور پر  اور بعض دفعہ اپنی جمع "سیر" کے ساتھ۔ اہم شخصیتوں کے سوانح حیا ت اور اہم تا ریخی  واقعات کے بیان کے لیے بھی استعمال  ہوتا رہا ہے ۔ مثلا سیرت عائشہ "یا" سیرت  المتا خرین " (یہ کتا بوں کے نا م ہیں )وغیرہ  کتب  فقہ میں "السیر " جنگ او ر قتال سے متعلق احکام کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے چو نکہ آنحضرت ﷺ کی سیرت کے بیان میں غزوات  ( کفار سے جنگوں کا ذکر خاصی اہمیت رکھتا ہے،اس لیے  ابتدائی  دور میں    میں کتب سیرت کو عموما مغازی و "سیر" کی کتا بیں کہا جا تا  تھا ۔لفظ مغازی بھی "مغزی " کی جمع  ہے جس کے معنی  ہیں جنگ (غزوہ)کی جگہ یا وقت ۔ بعد میں اس کےلیے  سیرت کی ترکیب استعمال ہو نے لگی۔

سیرت کا اصطلا حی مفہوم :

                اس طرح   ایک طویل تا ریخی عمل کے  بعد اب لفظ "سیرت " ایک اصطلا ح بن گیا ہے۔اور اب اس سے صرف    رسول ﷺ  کی مبا رک  زندگی کے جملہ حا لات   کا بیا ن مراد لیا جا تا ہے۔  کسی اور منتخب شخصیت کے حالات کے لیے "سیرت " کا استعما ل قریبا  متروک ہو گیا ہے۔  اب اگر مطا لعہ سیرت ،  کتب سیرت وغیرہ کا ذکر کیا جائے تو چا ہے"رسول ﷺ، "پیغمبر" یا "مصطفیٰ " وغیرہ الفاظ بھی ہوں ،تب بھی  اس مراد آنحضورﷺ کی سیرت لی جا تی ہے بلکہ بعض دفعہ  تو لفظ "سیرت" کو کتا ب کے مصنف کی طرف مضاف کر کے بھی یہی (اصطلاح) معنی لیے جا تے ہیں ۔مثلا:  سیر ت ابن ہشام ،کا  مطلب ابن ہشام کے حالات زندگی نہیں ہے بلکہ رسول ﷺ کے حالات ہیں جو ابن ہشام  (مصنفف کتاب ) نے جمع کیے ہیں ۔ اسی سے ہمارے زمانے میں آج کل جلسہ سیرت کانفرنس ،مقالات سیرت  واخبارات ورسائل کے سیرت نمبر  وغیرہ بکثرت الفاظ استعمال ہونے لگے ہیں ۔ ان تمام تراکیب میں لفظ "سیرت" کے معنی ہمشہ سیرت النبی ﷺ ہی ہوتے ہیں اسی وجہ سے بعض دفعہ ادب واحترام کے اظہار کے لیے اس لفظ کے ساتھ  کسی صفت کا اظہار  کر دیتے ہیں مثلا سیرت طیبہ،سیرت پا ک وغیرہ۔

سوال نمبر 2:بعثت حضرت محمد رسول اللہ خاتم النبین ﷺ سے قبل دنیا کے عام حالات پر جا مع  نوٹ تحر یر کر یں ۔

جواب: بعثت نبوی ﷺ سے قبل دنیا کے عام  حالات :

                چین اپنے مذہبی رہنما کنفیو شس کے زیر اثر  پھلا پھولا    پھر وہاں بہت سے  نشیب وفرار آتے گئے،بعثت نبویﷺ سے قبل وہاں کے  حالات بھی  دگر گوں ہو گئے اورترقی کی راہیں مسدود ہو گئیں ،ہزار سال قبل مسیح ہندوستان میں آریہ قبائل آئے جن کے زیر اثر ہندوستان میں ذات پات کی تقسیم  سینکڑوں  دیوتاؤں کی پر ستش ،ترک دنیا وغیر ہ کے نظریا ت اجتماعی زندگی کے قابل  نہیں رہے تھے،گوتم بدھ نے برہمنوں کے خلاف آواز  اٹھا ئی اور ایک نئے دین کی بنیاد ڈالی  ۔

                جس سے ایک نئی انتہا پسند ی کی ابتداء ہوئی۔ یہ مذہب چند صدی پھولا پھلا ، پھر ہندوستان سے نکال دیا گیا اور افراتفری کا شکار ہو گیا ،ترکستان کا حال بھی اچھا نہ تھا ،یہاں کوئی تمدن نہ تھا ،خود غرضی  کے سوا انسانیت کی خدمت کیلئے کوئی بلند نظر یہ نہ تھا، یونان تو کب کا ختم ہو چکا تھا، اس کی جگہ یورپ میں رومی حکومت قا ئم ہو گئی تھی مگر جب یہ مغربی اور مشر قی دوحصوں میں بٹ گئی تو مغربی رومیوں پر جرمنی وغیرہ وحشی قبائل ٹوٹ پڑے اور پا یہ تخت روما کے ما لک بن گئے ،عیسائیت قبول کی غیر عیسا ئیوں کو کہیں کا نہ چھوڑا،ادھر مشرقی رومی حکومت  ہمسا یہ ایرانیوں کے ساتھ صدیوں تک  لڑتی رہی ،عہدنبوی ﷺ کے ابتدائی زمانے میں ایرانیوں نے اپنے حریفوں سے مصر ،شام وغیرہ تک چھین لئے تھے،مگر قرآن حکیم نے رومیوں کے غلبے کا اعلان کیا اور 6ہجری میں رومی شہنشاہ ہر قل نے ایرانیوں کو ایسی فیصلہ کن شکست دی  کہ ان کا سیاسی استحکام ختم ہو گیا اور ایران  مدت تک  سنبھل ہی نہ سکا، مگر رومی بھی اس فتح سے کوئی فا ئدہ حاصل نہ کر سکے ،فرقہ بندیوں نے ان کی اجتما عیت کو کھو کھلا کر کے  رکھ دیا تھا، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ آگے چل کر ایران اور رومی حکومتیں اسلام کے حلقہ بگوش ہو گئیں۔

                حبش بھی خاصا بڑا علاقہ تھا ،اس نے ایرانیوں سے یمن چھین لیا تھا مگر جب بعثت نبوی ﷺ سے کچھ قبل وہاں کے حکمران کعبہ کو ڈھانے پڑے تو عذاب الہٰی میں گرفتار  ہوئے ،پھر جلد ہی اک کی حکومت عرب اور حبش دونوں  علاقوں میں بیکا رومعطل ہو کر رہ گئی۔

                الغرض اس زمانے میں جدھر دیکھئے دنیا میں تبا ہی اور فتنہ دفساد ہی نظر آتا ہے، ہر علاقہ اپنے غم میں مبتلا تھا۔ دوسرے کے غم میں کیسے شریک ہوتا'۔

سوال نمبر 3: بعث حضرت  محمد رسول اللہ خاتم النبین ﷺ اور  دعوت اسلام کے آغاز پر مضمون قلمبند کریں۔

جواب:دعوت اسلام کا آغاز:

            آنحضرت ﷺ کو جب نبوت سے نواز گیا تو آپ ﷺ نے سب سے پہلے ان لوگوں کو تبلیغ فرما ئی جو آپ ﷺ کے ساتھ ذاتی روابط اور تعلقا ت رکھتے تھے۔ آپ ﷺ کے اخلاق وعادات اور چالیس سالہ شبانہ روز کے معمولات سے واقف تھے انہوں نے بلا تا مل ا س دعوت کو قبول کیا ۔ پہلے پہل جن لوگوں نے آپ ﷺ کی دعوت پر لبیک کہا ، ان کے نا م یہ ہیں۔

عورتوں میں: آپ  ﷺ کی رفیقہ حیات ،حضرت خدیجہ  رضی اللہ عنہا

مردوں میں : آپ ﷺ کے بچپن کے دوست ،حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ

لڑکوں میں : آپ ﷺ کے چچا زاد، حضرت علی رضی اللہ عنہ

غلاموں میں : آپ  ﷺ کے جانثار خادم ، زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ

                شرو ع شروع میں تقر یبا تین سال تک دعوت و تبلیغ کا یہ کام پوشیدہ طور پر نہایت احتیا ط سے ہوا۔ اس عرصے میں حضرت ابو بکر ﷜کی تبلیغی کوششوں سے حضرت  عثمان ،حضرت زبیر،حضرت عبدالرحمان بن عوف ، حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت طلحہ ﷜وغیرہ کئی با اثر حضرات مشرف بااسلام ہوئے  ان کے قبو ل اسلام کا چرچا چپکے چپکے اور لوگوں میں بھی پھیلا اور حضرت خباب بن ارث ،عمار بن یا سر ، سعدبن زید ،عبداللہ بن مسعود ، عثمان بن مظعون ،ابوعبیدہ، صہیب اور ارقم ﷜ نے اسلا م قبول کیا اور ایک اچھی خا صی جما عت دائرہ اسلام میں داخل ہو گئی۔

                خفیہ اور محدود طریقے کی تبلیغ کو آہستہ آہستہ متعارف کرانے کا کام مزید آگے بڑھا اور "(اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے)" الشعرا ۔ 214 کی آیت نا زل ہوئی تو آپ ﷺ نے ایک دعوت  کا انتطام کیا ۔ تمام خا ندان بنو ہا شم کو مد عو کیا اور کھا نا کھلانے  کے بعد اسلام کی دعوت دی۔ تمام مجلس میں سنا ٹا تھا۔ صرف حضرت علی ﷜ کی ایک آواز آئی۔

"گو مجھے آشوب چشم کی شکا یت ہے میری ٹا نگیں پتلی ہیں اور میں کم عمر ہوں ، لیکن آپ ﷺ کا سا تھ دوں گا ۔"

 دعوت اسلام :

اگرچہ خفیہ تبلیغ کا کام جا ری تھا لیکن آپ ﷺ کا فرض چند افراد  کے راہ راست پر آجا نے سے ختم نہ ہوتا تھا۔ آپ ﷺ نے تمام عالم کو اسلام کی ہدایت  سے منو ر کرنا تھا۔ اس لیے تین سال کے بعد علانیہ تبلیغ کے احکام نازل ہوئے۔

ترجمہ:"جو آپ ﷺ کو حکم دیا گیا وہ برملا بیان کیجئے اور مشرکوں سے کنا رہ  کش رہیے"۔(الحجر 93)

                اس موقع پر آپ ﷺ نے کوہ صفاہ پر کھڑے ہو کر آواز دے کر تمام اہل مکہ کو صفا کے دامن میں جمع کر لیا جب لو گ اکٹھے ہوئے تو پہلے آپ ﷺ نے پوچھا کہ اگر میں تمہیں بتلاؤں کہ اس پہاڑی کی دوسری جانب سےایک لشکر جرارتم پر یلغار کرنے والا ہے تو تم مان لو گے؟ سب نے کہا، کیوں نہیں  جب کہ ہم نے آپ  کو ہمشہ سچ ہی بو لتے پا یا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا تو میں تم سے کہتا ہوں کہ اگر تم ایمان نہ لاؤ گے توتم پر سخت عذاب نا زل ہو گا ۔  اگر تم دونوں جہانوں کی کامیابی چاہتے ہو تو پڑھو:"لاالہ الا اللہ" اس موقع پر ابو لہب نے بد زبانی کی اور آپ ﷺ کو بر ا بھلا کہتا ہوا چل پڑا ۔ اس  سے جلسہ درہم برہم ہو گیا ۔ ابو لہب کی اس بد زبانی کا جواب قرآن مجید میں سورۃاللہب میں دیا گیا ہے۔

                اس اعلان کے بعد آپ کا طریقہ تبلیغ یہ رہا کہ جہاں بھی کچھ لو گ نظر آتے۔ آپ ﷺ ان کو قرآن کی آیا ت پڑھ کر بتا تے اور اسلام کی دعوت دیتے۔ آپ جا نتے ہیں کہ اسلام کے زیا دہ تر احکام بعد کے دور میں نا زل ہو ئے۔قرآن حکیم تئیس (23) سال تک نازل ہو تا رہا اور مختلف احکام وقتافوقتا نازل ہوئے۔اس ابتدائی زمانے میں رسول اکرم ﷺ کی دعوت کے تین بنیادی نکات تھے۔

1۔توحید باری پر ایمان                      2۔ نبوت ورسالت پر ایمان                                3۔آخرت پر ایمان

                اس کے علاوہ آپ ﷺ نیکور کا ری اور اخلاق حسنہ پر بھی زور دیتے جس کا ذکر آپ اسی یو نٹ میں آگے ہجرت حبشہ کے زیر عنوان حضرت طیارہ ﷜ کی تقریر میں پڑھیں۔

                عبادات میں سے نماز شروع سے ہی فرض ہو گئی لیکن جو پا نچ نمازیں ہم اب پڑھتے ہیں یہ معراج کے موقع پر فرض ہو ئیں۔ ابتداٰء میں دو نمازیں پڑھنے کا حکم تھا اور وہ بھی دودو رکعت۔

                اعلانیہ  تبلیغ کے بعد مسلمانوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو تا گیا ۔ ہر نیا مسلما ن اپنی جگہ ایک مبلغ بن کر اپنے حلقے میں تبلیغ شروع کر دیتا ۔مرد اور عورتیں دونوں پورے جوش وخروش سے اس کام میں شریک ہو گئے ۔چنانچہ اس کا ردعمل بھی شدید ہونے لگا۔

سوالنمبر 4:  حضر ت محمد رسول اللہ خا تم النبین ﷺ کی قبا آمد اور مسجد نبوی کی تعمیر پر علیحدہ علیحدہ  نوٹ تحر یر کر یں۔

جواب : قبا ء میں آمد:

رسول پا ک ﷺ مکہ سے ہجرت کر کے تین دن تک غارثور میں رہے اور پھر عام راستوں کی بجا ئے تقریبا غیر آبا دراستوں سے ہوتے ہوئے آٹھ روز کے سفر کے بعد 8 ربیع الاول 14 نبوی کو دوپہر کے وقت قبا پہنچے ۔ قبا مدینہ سے چند میل کے فا صلے پر ہے اور وہ مدینہ کا ہی ایک معا ملہ سمجھا جاتا تھا ۔ مکہ سے آپﷺ کی روانگی کی خبر کئی روز پہلے مدینے پہنچ چکی تھی اس لیے انصا ر مدینہ روزانہ صبح سے دوپہر  تک بستی سے با ہر نکل کرآپ ﷺ  کت انتظا ر میں کھڑے رہتے تھے کہ آپ ﷺ دور سے تشریف لاتے ہوئے نظر آئیں گے جب دھوپ بہت تیز ہو جا تی تو واپس اپنے گھروں کو چلے جا تےحضور ﷺ چونکہ قبا کے نزدیک دوپہر کے وقت پہنچے اس لیے اہل قبا اپنے گھروں کو جا چکے تھے اتنے میں ایک یہودی کی نظر آپ ﷺ پر پڑی اور اس نے پکا رکر لوگوں کواطلاع دی کہ جن کا انتطا ر تھا وہ تشریف لے آئے ہیں۔یہ  آواز سنتے ہی لوگ اپنے گھروں سے نکل پڑےاور سارے قبا میں خوشی سے شور مچ گیا ۔ اس وقت حضرت ابوبکر صدیق ﷜ نے فورا پیچھے سے ہو کر  آپ ﷺ پر اپنی چادر کا سایہ کر دیا ۔اس طرح لوگوں کو آسانی اے معلوم ہو گیا کہ آنے والے قا فلےمیں نبی کو ن ہے۔انصار کی چھوٹی چھوٹی بچیا ں خوشی سے گیت گا رہی تھیں۔ غرض اہل  مد ینہ  نے آپ ﷺ کا استقبال بہت شاندار طریقے سے کیا ۔  حضور ﷺ قبا  میں کلثوم ﷜ بن ہدم کے مکان میں ٹھہرے اور لوگوں کو اسلام کی تعلیم دی۔ یہیں آپ ﷺ نے ایک چھوٹی سی مسجد کی تعمیر کر ائی یہ اسلام کی سب سے پہلی مسجد ہے  قبا میں آپ ﷺ نے چودہ دن قیام فرمایا۔

                آپ کو یا د ہوگا کہ حضور ﷺنے ہجرت کی رات حضرت علی ﷜ کو اپنے بستر پر سلایا تھا بعد میں حضرت علی ﷜بھی لوگوں کی اما نتیں واپس کر کے مدینہ کو ہجر کر آئے اور قبا میں ہی حضور ﷺ سے آملے چودہ دن حضورﷺ قبا میں  قیام کرنے کے بعد شہرکی طرف روانہ ہوئے راستے میں بنو سالم کے محلے میں نماز کا وقت آگیا ۔اتفا ق سے اس جمعہ تھا  ۔ اور حضور ﷺ نے نماز یہیں ادا فرمائی ۔نماز سے پہلے خطبہ بھی دیا۔ اس طرح حضورﷺ کی سب سے پہلی نماز جمعہ تھی جو آپ ﷺ نے ادا فرمائی ۔مدینہ      شہر میں آپ ﷺ کی آمد کے وقت لوگوں کو خوشی اپنی انتہا پر تھی ۔ عورتیں مکانوں کی چھتوں پر چڑھ آئی تھیں ۔سب لوگوں کو خواہش تھی کہ حضور ﷺ ان کے گھر آکر ٹھہر یں۔ سب سے بڑھ کرآپ سے درخواست  کرتے تھے کہ آپ ﷺ ہمارے مہمان بینے ۔ ہماری جان ومال سب کچھ حاضر ہے۔ اس پر آپ ﷺ نے لوگوں سے فرمایا کہ میری اونٹنی کو چھوڑدو یہ اللہ کے حکم سے جہاں کہیں ٹھہرے گی۔وہیں میرا قیا م ہوگا۔آخر حضرت ابوایوب انصار  ی﷜ کے گھر کے سامنے اونٹنی بیٹھ گئی اس طرح وہ آپ ﷺکے میزبان بنے۔آپ ﷺ کےسات ماہ تک یہاں قیام  فرمایا یہاں تک کہ مسجد نبوی اور آپ ﷺ کی ازواج کے حجرے تعمیر ہوگئے تو آپ ﷺ وہاں منتقل ہو گئے۔

مسجد نبوی کی تعمیر:

مدینہ میں کچھ عرصہ قیام  کرنے کے بعد رسول خدا نے  مسجد کی تعمیر کا فیصلہ کیا۔ اس کے لیے جو زمین منتحب کی گئی وہ بنی نجارکے قبیلے کے دو یتیم بچوں کی ملکیت تھی۔ انہوں نے مسجد کے لیے بلا قیمت نذر کرنا چا ہی مگر آپﷺ نے پسند نہیں فرمایا اور حضرت ابو ایوب انصاری ﷜ نے اس کی  قیمت ادا کر دی اس طرح مسجد کی تعمیر کا آغاز ہوا۔ مسجد بالکل سادہ بنائی گئی،فرش بالکل کچاتھا انیٹیں  کچی تھیں جن سے دیواریں بنائی گئیں چھت کھجور کے پتوں اور لکڑی سے بنائی گئی تھی۔ مسجد کے ایک سرے پر ایک چبوترہ بنایا گیا اسے "صفہ" کہتے ہیں یہ ان لوگوں کے لیے تھا جو اسلام قبو ل کرتے تھے  لیکن ان کا کوئی گھر نہیں ہوتاہے۔ اس مسجد کی تعمیر میں حضورﷺ نے ایک عام مزدور کی حیثیت سے کا م کیا اور صحابہ کرام﷜کے ساتھ  مٹی کھودتےاور اینٹیں اور پتھر اٹھا اٹھا کر لاتے۔

جب مسجد نبوی کی تعمیر ہو چکی تو مسجد کے بالکل  ساتھ ہی آپ  نے ازواج مطہرات ﷜کے لیے حجرے بنوائے ۔اس وقت حضرت عائشہ اور حضرت سودہ﷜ ہی آپ کے نکاح میں تھیں۔اس لیے دو ہی حجرے بنے بعد میں جب دوسری بیبیاں آپ ﷺکے نکاح میں آئیں تو ان کی ضرورت کے مطا بق اور حجرے بنائے گئے۔یہ سب بھی کچی اینٹوں کے تھے اور چھت اتنی اونچی تھی کہ آدمی کھڑا ہو کر چھت کو آسانی سے چھو سکتا تھا۔

سوالنمبر 5:عقد مواخات اور اس کے اثرات پر جا مع نوٹ تحریرکریں۔

جواب :عقد مواخات:

مدینہ میں حضورﷺ نے جس چیز کی طرف خصوصی توجہ دی،وہ شہر کا امن وامان اور باشندوں کے با ہمی تعلقات کو خوشگوار بنایا تھا ۔آپ ﷺ نے جا تے ہی اس با ت کو محسوس فرمایا کہ مہاجرین کی جماعت مکہ سے آئی ہے،واہل مدینہ کے لیے با عث اذیت نہ ہو ۔ ساتھ ساتھ آپ کا خٰیال بھی تھا کہ مہاجرین، جنہوں نے دین کی خاطر انتہائی تکلیفیں برداشت کی ہیں ،اپنے گھر ،وطن ،رشتہ دار،مال دولت سب کچھ چھوڑکر مدینہ آگئے ہیں ۔اب زیادہ پر یشان نہ ہوں ۔ چنانچہ آپ ﷺ نے تمام انصار ومہاجرین کو ایک جلسے میں جمع کر کے  اخوت اسلامی کا وعدہ فرمایا اور مسلمانوں میں  مواخات یعنی بھائی چارہ قائم کرکے مہاجرین اورانصار کے  تعلقات کو نہایت خوشگوار بنا دیا۔  عموما ایک ایک انصاری کے درمیا ن مواخات قائم ہو گئی ۔ مثلا حضرت ابوبکر ﷜ کے دینی بھا ئی خارجہ بن زبیر انصار ی ہوئے اور عمار بن یا سر ﷜ اور خدیفہ بن یمان ﷜میں بھائی چارہ مستحکم ہوا۔اس عہد مواخات کو انصار مدینہ نے اس خلوص اوراحتیا ر سے نبھایا کہ تا ریخ میں کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ تمام مہاجرین کو انصار نے حقیقی معنوں میں اپنا بھائی سمجھا اور اپنا سب مال وولت ان کے سپر د کرنا چاہا۔دوسری طرف مہاجرین نے بھی اپنا بوجھ انصار پر نہ ڈالنا چاہا اور پوری تندہی سے محنت اور اپنی ضروریا ت زندگی خود پوری کرنے لگے چنانچہ انہوں نے دکانداری اور تجارت بھی شروع کر دی۔

مواخات کے اثرات:

                اس موا خات کا اثر جہاں عام معاشرتی زندگی پر پڑاوہاں معیشت پر بھی اس کے نمایا ں اثرات مر تب ہوئے اہل مکہ زیادہ تر تجارت  کیا کرتے تھے اور زراعت کے با رے میں زیادہ نہ  جا نتے تھے۔ اس کے مقابلے میں انصار زیادہ تر زراعت پیشہ تھے  اور مدینہ کے یہودی تجارت پر قابض  تھے۔وہ حضورﷺ کی آمد سے پہلے زراعت پیشہ لوگوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ۔فصل کی کٹائی کے موقع پر قیمتیں کم کر دیتے اور فصل سستے داموں خرید لیتے بعد میں قیمت پڑھا کر فروخت کرتے۔اسی طرح وہ سود کا کاروبار بھی کرتے جس کی وجہ سے انصار غریب ہوتے گئے اور جب حضورﷺ نے انصار مدینہ ومہاجرین میں بھا ئی چارے کا رشتہ قائم کیا تو انصار نے پہلے کی طرح زراعت ہی کو اپنا زریعہ آمدنی بنایا جب کہ مہاجرین تجارت کو پسند کرتے تھے پھر اسلام میں سودی کاروبار اور ذخیرہ اندوزی بھی ممنوع تھی۔اس طرح یہود کی تجارت میں اجارہ داری ختم ہو گئی ۔مسلمان زیا دہ تر مسلمانوں سے ہی لین دین کرتے اسی طرح اکثر غیر مسلم نھی یہود کے مقابلے میں مسلمان تا جروں سے لین دین کرنا زیادہ پسند کرتے چنانچہ  وہ مسلمان تاجروں کی ایمانداری اور ان کے اچھے اصولوں سے واقف ہوتے اور لاشعوری طورپر  اسلام کی طرف مائل ہوجا تے ۔اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ عرب قبائل میں تحریک اسلام کا میابی کا ایک بنیادی سبب یہ معاشی افادیت بھی تھی۔  ہ کیا ۔اس کے لیے جو زمین منتہانال سب کچھ ستے می مسجد ہے  قبا می                                            


ا

اسائنمنٹ  پی ڈی ایف میں یہاں سے ڈاؤن لوڈ کریں۔

Post a Comment

0 Comments